1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

پاکستانی نوجوانوں میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات؟

7 جنوری 2022

پاکستان میں، جو طبقہ سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے، وہ نوجوانوں لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ قریباﹰ ستائیس ملین نوجوان بے روزگار ہیں جبکہ نشہ کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/45FT7
Pakistan | Hindu Tempel in Brand gesteckt
تصویر: Abdul Majeed/AFP

پاکستان میں کی جانے والی سب سے اہم سرمایہ کاری وہی ہے، جو نوجوانوں کے لیے بہتر ہو۔ اگر نوجوانوں پر سرمایہ کاری کرنی ہی ہے تو یہ تین قسم کی ہو سکتی ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم، ملازمت اور مثبت سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔

اور اسی سرمایہ کاری کی بدولت ہم نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم کی بیخ کنی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ معاشرے میں موجود افراد ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور معاشرے کی کردار سازی کی ذمہ داری بھی ان ہی پر عائد ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا قریباً 64 فیصد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے 27 ملین بے روزگار ہیں۔ یہ بے روزگار نوجوان پاکستانی معاشرے کے لیے 'ٹائم بم‘ جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ معاشرے میں بہت سے ایسے عناصر موجود ہیں، جو نوجوان نسل کو منفیت کی طرف دھکیلتے ہیں۔

ان عناصر میں غیر مؤثر تعلیمی نظام، ناقص مصروفیت، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں شمولیت کا نہ ہونا، سرکاری اور نجی طور پر روزگار کے بہترین مواقع میسر نہ ہونا، معاشی عدم استحکام کی وجہ سے بے چینی اور عدم برداشت کا بڑھ جانا شامل ہیں۔

اگر بین الاقوامی کرائم انڈیکس 2021ء کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے سے آبادی میں کئی گنا بڑے بھارت کے 77 نمبر کے مقابلے میں 79 نمبر پر کھڑا ہے۔ پاکستانی نوجوان نسل میں موجود جرائم میں سب سے زیادہ منشیات کی خرید وفروخت اور استعمال شامل ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق قریباً 40 فیصد نوجوان، جن میں 15 سے 30 سال تک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں، نشے کی لت میں مبتلا ہیں اور اس کی بڑی وجہ ایڈوینچر اور تھرل ہے۔ قریباً 20 فیصد نوجوان پڑھائی کے پریشر کو کم کرنے کے لیے سکون آور نشے کا استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے معروف تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کی خریدو فروخت عام بات بن چکی ہے اور بہت سے خطرناک جرم صرف اس نشے کی خرید کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔

DW Urdu Blogerin Arifa Rana
عارفہ رانا، بلاگرتصویر: privat

مقامی ذہنی صحت سروے کے مطابق سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار نوجوان آبادی ہے، جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کہیں نہ کہیں تو معاملات ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور ان مسائل سے معاشرہ جس طور نمٹ رہا ہے وہ اقدامات ناکافی ہیں۔

 حکومتی سطح پر نوجوان نسل کو وزیراعظم یوتھ پروگرام 2013ء کے تحت اعلیٰ تعلیمی پالیسی کے ذریعے مثبت جانب لانے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ لیبر سروے رپورٹ 2014-2015 نے ان اقدامات کو ناکافی اور ناقص قرار دیتے ہوئے چند مزید عوامل کی نشاندہی کی، جو نوجوان نسل میں جرائم کے اضافے کا سبب ہیں۔

ان میں سر فہرست معاشی دباؤ اور اچھے طرز زندگی کی خواہش ہے، جس کو پورا کرنے کے لیے پڑھے لکھے یا ہنر مند نوجوانوں کے لیے مناسب مواقع موجود نہیں ہیں۔ اس صورت میں واحد راستہ جرم ہی باقی بچتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اپنے تئیں ''کامیاب جوان‘‘ کے تحت قرضہ جات کی فراہمی کا دعوی کرتی ہے مگر بینکنگ ذرائع کے مطابق اس کا طریقہ کار کافی مشکل ہے، جس کی وجہ سے قرض کے لیے درخواست دینے والوں کو اس کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان بے روزگار تعلیم یافتہ لوگوں کے رجحان کا سامنا کر رہا ہے، خاص طور پر بے روزگار گریجویٹس کا۔ ڈگری ہولڈرز میں بے روزگاری کی شرح دیگر مجموعی بے روزگار لوگوں کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی وجہ دی جانے والی تعلیم اور گریجویٹس کو جذب کرنے کے لیے معیشت کے ساتھ مطابقت نہ ہونا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو کوورنا وباء کے اثرات کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی ہے۔ تمام تر ضروریات تو وہی ہیں اور ان کو پورا بھی کرنا ہے۔ علاوہ ازیں وباء نے مہنگائی کی صورت بھی اثرات چھوڑے ہیں۔ مگر معاشی طور  سے بدحال ہونا اور روزگار کے مواقع کا مزید سکڑ جانا، قابل فکر وجوہات ہیں۔

 چونکہ ہم ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ بے روزگار ہیں، اس لیے، جن جرائم میں نوجوان نسل زیادہ شامل نظر آ رہی ہے، وہ منشیات کے علاوہ سائبر کرائمز اور سٹریٹ کرائمز ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق سائبر کرائم میں 83 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کو سر انجام دینے والے لوگ زیادہ تر طلباء یا بے روزگار ڈگری ہولڈر ہیں۔

اس کے علاوہ جرائم کی کچھ پیچیدہ نفسیات بھی نوجوانوں میں جرائم بڑھنے کا سبب ہے۔ جس میں بچپن میں خواہشات کا پورا نہ ہونا، بچے کو جرم سے بھرا ماحول ملنا یا پر تشدد ماحول میں پرورش پانا، تعلیمی یا معاشی دباؤ وغیرہ شامل ہیں۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انساننی ذہن عام طور سے منفیت کا جلدی اثر لیتا ہے۔ ہم جو کچھ پڑھتے، دیکھتے یا سنتے ہیں، ہمارے لا شعور میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ میڈیا بھی کسی حد تک جرائم کے بڑھنے میں مددگار ہے۔ معاشرے کے کچے ذہن کے کم پڑھے لکھے نوجوان گلیمر اور چمکتی دنیا دیکھ کر یک لخت اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے کسی بڑے جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔

 ایسے جرائم میں پکڑے جانے والے مجرم سے جب سوال کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ جرم کیوں کیا تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم فلاں ڈرامے کے فلاں کردار سے متاثر تھے۔ سال 2020 میں بہاولپور میں اسی طرح ایک فلم سے متاثر ہو کر اسی انداز میں اغوا کا ڈارامہ رچایا گیا تھا۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔