'پاکستان بھارت پر تنقید سے قبل اپنے گریبان میں جھانکے‘
13 دسمبر 2019بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا، ”ہمیں نہیں لگتا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ہر بیان پر ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن شہریت ترمیمی بل 2019ء کے حوالے سے عمران خان کا بیان نامناسب ہے۔ انہیں بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حال پر توجہ دینی چاہیے۔"
خیال رہے کہ عمران خان نے شہریت ترمیمی بل کے بھارتی پارلیمان سے منظور ہونے پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا، ”ہندو بالادستی کا ایجنڈا کشمیر کے غیر قانونی قبضے اور محاصرے سے شروع کیا گیا، اس بالادستی کے ایجنڈے کا نیا قدم شہریت کا متنازعہ بل ہے۔ مودی کے ہندو بالادستی کے ایجنڈے میں پاکستان کو دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں لیکن اس کے نتیجے میں خونریزی اور دنیا کو سنگین نتائج کا سامنا ہو گا۔"
پاکستانی وزیر اعظم نے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ہجوم کے ذریعے سر عام قتل کیا جاتا ہے۔ دنیا کو اس کا ادراک کرنا چاہیے کہ نسل کشی کے ذریعے نازی جرمنی کی بالا دستی کے ایجنڈے سے دوسری عالمی جنگ چھڑی اور مودی کا ہندوؤں کی بالادستی کا ایجنڈا اور پاکستان کو دھمکیاں بڑے پیمانے پر خونریزی کا باعث بنیں گی۔ عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا منڈلاتے ایٹمی خطرات کے بھیانک نتائج کا ادراک کرے، نازی جرمنی کی طرح مودی کے بھارت میں بھی لوگوں کو اختلاف کے حق سے محروم کر دیا گیا اور اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، عالمی برادری ہندو بالا دستی کوروکنے کے لیے مداخلت کرے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اس طرح کے بیانات دے کر اپنے یہاں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادیتوں کے الزامات سے بری نہیں ہو سکتا۔ جس ملک کے آئین میں ہی امتیازی سلوک کی بات کہی گئی ہے، جہاں توہین اسلام جیسےسخت قوانین موجود ہوں اور ریاستی ادارے اقلیت سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو جنسی زیادتی، اغوا، جبراً تبدیلی مذہب اور شادی سے بچانے میں ناکام رہے ہوں اسے دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
رویش کمار کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور بین الاقوامی ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے دیگر ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کی 'عادت‘چھوڑ کر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھی بھارت کے شہریت بل کی منظوری کے بعد کہا تھا کہ جہاں پر اور جس فورم پر بھی ضرورت پڑے گی بھارت کا بائیکاٹ کیا جا ئے گا۔ ڈاکٹر محمد فیصل کے بقول بھارت میں شہریت سے متعلق قانون سازی سے اقلیتوں کے تحفظ کے شدید خطرات پیدا ہو چکے ہیں اور یہ قانون سازی ہندو راشٹریہ کی سوچ مسلط کرنے کی سازش ہے۔
نئے شہریت قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، مسیحیوں، بودھوں، جینیوں اور پارسیوں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
واضح رہے کہ بھارتی وزیر داخلہ کی طرف سے پیش کردہ شہریت ترمیمی بل کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی منظوری ملنے کے بعد بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے بھی اس پر دستخط کر دیے ہیں اور اب یہ قانون بن گیا ہے۔ اس کے خلاف ملک کے مختلف حصوں اور بالخصوص شمال مشرقی ریاستوں میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں، جن میں کم از کم دو افراد ہلاک جب کہ درجنوں دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ کئی شہروں میں کرفیو نافذ ہے۔ نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں اورسلامتی دستوں نے فلیگ مارچ کیا ہے۔
اس دوران پرتشدد واقعات کے مدنظر بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن کے بعد بنگلہ دیشی وزیر داخلہ اسدالزماں خان نے بھی بھارت کا اپنا دورہ منسوخ کردیا ہے۔ اسد الزمان میگھالیہ کے وزیر اعلی کونارڈ سنگما کی دعوت پر آج جمعہ کو بھارت آنے والے تھے۔ اس سے قبل عبدالمومن نے کل جمعرات سے شروع ہونے والا اپنا تین روزہ دورہ اچانک منسوخ کردیا تھا۔