تربیتی جہاز آبادی پر گرنے سے 19 افراد ہلاک
30 جولائی 2019پاکستانی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ تربیتی ہوائی جہاز آج منگل 30 جولائی کو علی الصبح دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے مضافات میں گِرا۔ تاہم اس بیان میں اس جہاز کی تباہی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ مقامی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دو اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں لیکن سرکاری طور پر ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔
ایک امدادی کارکن عبدالرحمان نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ جہاز کے کریش ہونے کے بعد اس میں آگ لگ گئی، جس کی لپیٹ میں پانچ گھر بھی آ گئے۔ اس کارکن کے مطابق مرنے والے تمام افراد اسی آگ کے سبب ہلاک ہوئے۔
ایک اور امدادی افسر فاروق بٹ کے مطابق اب تک 14 افراد کی لاشیں ملبے سے نکالی جا چکی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں عملے کے پانچ ارکان جبکہ 14 عام شہری شامل ہیں۔ بٹ کے مطابق کچھ لاشیں اس بُری طرح جل چکی ہیں کہ ان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کا سہارا لیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک درجن کے قریب افراد زخمی بھی ہیں جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
عوام کی طرف سے سوشل میڈیا پر شائع کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں گھروں میں لگی آگ کے بڑے بڑے شعلے دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ لوگوں کی چیخیں اور آہ و بکا بھی سنی جا سکتی ہے۔
ایک پرائیویٹ پاکستانی ٹیلی وژن سے گفتگو کرتے ہوئے ایک عمر رسیدہ شخص نے بتایا کہ اس کی بہن کا پورا خاندان مارا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے مطابق امدادی کام تقریباﹰ مکمل ہو چکا ہے اور اب جہاز کی تباہی کی تحقیقات کے لیے جائے حادثہ سے شواہد جمع کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ 15 برسوں کے دوران تین بڑے فضائی حادثات ہو چکے ہیں جن میں سینکڑوں مسافر مارے گئے۔ ڈی پی اے کے مطابق ان حادثات کی بڑی وجہ پاکستان کی نامناسب سیفٹی ریگولیشنز کو قرار دیا جاتا ہے۔
سال 2010ء میں کراچی سے اسلام آباد جانے والا ایئربلیو کا ایک مسافر بردار ہوائی جہاز مارگلہ کی پہاڑیوں میں گِر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں 152 افراد ہلاک ہوئے۔
دو برس بعد یعنی 2012ء میں ایک مسافر بردار جہاز اسلام آباد کے قریب گرنے سے اس پر سوار تمام 127 افراد ہلاک ہوئے جبکہ سال 2016ء میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا چترال سے اسلام آباد آنے والا ایک اے ٹی آر گر کر تباہ ہوا جو 47 مسافروں کی ہلاکت کا سبب بنا۔
ا ب ا / ا ا (ڈی پی اے)