پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی، ڈیڈ لائن کے آخری دو دن
29 جنوری 2018گزشتہ ماہ اسلام آباد حکومت نے آٹھویں مرتبہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کا فیصلہ کیا تھا جس کی ڈیڈ لائن دو دن بعد ختم ہورہی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اس فیصلے نے رجسٹرڈ اور غیر قانونی افغان مہاجرین کے ساتھ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے حکام کو بھی پریشان کردیا ہے۔
یو این ایچ سی آر اور افغان کمشنریٹ کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ ملین رجسٹرڈ اور ایک ملین سے زائد غیر قانونی افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ پشاور میں مقیم افغان باشندے اور افغان شوریٰ کے رُکن، ملک عبدالغفار شینواری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئےکہا کہ رضاکارانہ طور پر افغانستان جانیوالے چار لاکھ افغانوں میں سے ایک لاکھ سے زیادہ واپس آ گئے ہیں کیونکہ وہاں کے حالات ایسے نہیں کہ کوئی کاروبار کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان سے ان مہاجرین کی واپسی کی مدت میں مزید دو تین سال توسیع کا مطالبہ کریں گے۔ عبد الغفار شینواری نے مزید کہا،’’ افغان حکومت اور بین الاقوامی ادارے واپس جانے والے افغان باشندوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں سردمہری اور حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے بعد پاکستان نے افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افغانستان میں آئے روز دہشت گردی اور بدامنی کے واقعات کی وجہ سے مبینہ طور پر حکومت لاکھوں کی تعداد میں واپس جانیوالے افغانوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس حوالے سے پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل پروفیسر معین مرستیال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صدر اشرف غنی نے پاکستان سے جانے والے افغان باشندوں کی آباد کاری اور بحالی کیلئے گھر ،پانی ،صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بارے میں جامع منصوبہ تیار کیا تھا لیکن بدامنی کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
ان کا مزید کہنا تھا،’’ اب حکومت نے تجویز دی ہے کہ واپس جانیوالوں کو پہلے مرحلے میں زمین دی جائے اور دوست ممالک سے انہیں گھر بنانے میں تعاون کے لیے کہا جائےگا۔ ایک بار انہیں سر چھپانے کیلئے جگہ مل جائے تو دیگر سہولیات کی فراہمی آسان ہوگی۔‘‘
پاکستان اور بالخُصوص خیبر پختونخوا میں قیام پذیر زیادہ تر افغان باشندے تجارت کے پیشے سے وابستہ ہیں جنہوں نے یہاں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ پشاور کے مصروف ترین تجارتی مرکز کارخانو مارکیٹ میں تاجروں کی اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے۔
پشاور میں کپڑے اور کاسمیٹکس کے تاجر عبداللہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’افغانستان میں امن ہو تو ایک دن یہاں نہیں رہیں گے۔ کاروبار وہاں شفٹ کیا تھا لیکن بدامنی میں اضافے کی و جہ سے وہاں رہنا مشکل ہے تو پھر کاروبار کیسے کریں گے۔‘‘
خشک میوہ جات کے کاروبار سے وابستہ تاجر نبی جان کا کہنا تھا، ’’ہم یہاں کاروبار کرتے ہیں لیکن بالواسطہ طرح طرح کے ٹیکس بھی دیتے ہیں یہاں کے لوگوں کو بھی روزگار ملا ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ جب تک پاکستان اور افغانستان کی قیادت آپس میں بیٹھ کر مسائل کا حل نہیں نکالتی تب تک دونوں ممالک کے کروڑوں عوام کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
اُدھر پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کی واپسی کی مدت میں مزید پانچ ماہ کی توسیع کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ تاہم صوبائی حکومت کے وزیر مشتاق احمد غنی کے بقول، ’’مہاجرین کی وطن واپسی کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گا جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو وفاق سے اشارہ ملتے ہی غیر قانونی مہاجرین کی واپسی کیلئے اقدامات اٹھائیں گے۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت کی تیاری مکمل ہے۔‘‘
احمد غنی کا مزید کہنا تھا کہ آج بھی خیبر پختونخوا میں پندرہ لاکھ غیر رجسٹرڈ مہاجرین قیام پذیر ہیں جنکی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔