پاکستان سے خاص لگاؤ رکھنے والا جرمن جوڑا
جرمن دارالحکومت برلن کا ایک جوڑا اب تک دنیا کے کئی ممالک کا سفر کر چکا ہے۔ نت نئی ثقافتوں کے بارے میں جاننا ان کا شوق ہے لیکن پاکستان سے انہیں خاص لگاؤ ہے۔ یہ جوڑا پاکستان کے ایک دیہی اسکول کی مالی سرپرستی بھی کر رہا ہے۔
رنگوں اور جھنڈوں سے سجی گاڑی
برلن کے اس جوڑے نے اپنی گاڑی کو ہر اس ملک کے جھنڈے اور وہاں بولی جانی والی زبانوں میں لکھی عبارتوں اور اشعار سے سجا رکھا ہے، جس کا انہوں نے سفر کیا۔ یوں یہ گاڑی دیکھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
چین کی سرحد اور برف پوش پہاڑ
جرمنی سے براستہ پولینڈ، روس، ایران اور وسطی ایشیا سے ہوتا ہوا یہ جرمن جوڑا خنجراب پاس کے ذریعے چین سے پاکستان میں داخل ہوا۔
ایک تصویر یہاں بھی
شمالی علاقہ جات کے بلند و بالا برفیلے پہاڑ اور دلکش مناظر اس جرمن جوڑے کو کئی مرتبہ پاکستان کے سفر پر مائل کر چکے ہیں۔
ہر سفر یادگار
شاہراہ قراقرم کے بل کھاتے راستوں پر برلن کے اس جوڑے کا یہ پہلا سفر نہیں تھا لیکن اوٹے اور آندریاز کے لیے اس شاہراہ کا ہر سفر یاد گار اور تاریخی ہے۔
پر خطر راستہ
اس سفر میں کئی مشکل مقامات گزرے لیکن کوئی خطرہ ان کے شوق کی راہ میں حائل نہیں ہو سکا۔
کریم آباد کے رستے میں
سلک روڈ پر کریم آباد کی طرف جاتے ہوئے یوں تو کئی دل موہ لینے والے مقامات آئے۔ لیکن اوٹے کے بقول اس جگہ کی خوبصورتی کی بات الگ ہی تھی۔
عطا آباد جھیل
لینڈ سلائڈنگ کے بعد وجود میں آنے والی عطا آباد جھیل کو پار کرنے کے لیے انہیں اپنی جیپ کشتی کے ذریعے دوسرے کنارے لے جانا تھی۔ آندریاز اور اوٹے کے لیے یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔
مقامی لوگوں کی مدد
برلن کے اس سیاح جوڑے کا کہنا ہے کہ عطا آباد جھیل پار کرنے میں جس طرح مقامی لوگوں نے ان کی مدد اور رہنمائی کی، وہ ان کے لیے ناقابل فراموش ہے۔
سرگودھا کے قریب کائفا اسکول
یہ جوڑا سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں واقع کائفا اسکول کی مالی طور پر سرپرستی بھی کر رہا ہے۔ اس اسکول میں 70 فیصد مسلمان اور 30 فیصد مسیحی بچے زیر تعلیم ہیں۔
سلائی کڑھائی کا ہنر
اس اسکول میں طالبات کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی کا ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔ آندریاز اور اوٹے کی رائے میں یہ ہنر مقامی خواتین کو خود کفیل بنا سکتا ہے۔