1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: موبائل فونز کی پیداوار بڑھتی ہوئی، صارفین 183 ملین

5 ستمبر 2021

پاکستان میں موبائل فونز کی مارکیٹ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے جبکہ روایتی اور سمارٹ فونز کی صنعتی پیداوار بھی مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ موبائل فون استعمال کرنے والے پاکستانی صارفین کی موجودہ تعداد 183 ملین سے زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3zw6o
Pakistan | Verkauf von Mobiltelefonen
پاکستانی ٹیلی کمیونیکیشن مارکیٹ میں پیداوار اور خدمات دونوں شعبوں میں چینی کمپنیاں بڑا کردار ادا کر رہی ہیںتصویر: Ismat Jabeen/DW

اپنے 220 ملین کے قریب باشندوں کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس ملک میں کروڑوں شہری غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں، مگر ٹیلی مواصلاتی رابطوں کے لیے موبائل فون دنیا کے دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی اتنا ضروری ہو چکا ہے کہ ملک کے 80 فیصد سے زائد شہریوں کے پاس اپنا کوئی نہ کوئی ذاتی موبائل فون موجود ہے۔

ترقی یافتہ مغربی دنیا میں عام شہریوں کی بہت بڑی اکثریت انفرادی سطح پر سمارٹ فونز کی مالک ہے، تاہم پاکستان میں صارفین کی بہت بڑی تعداد موجودہ ڈیجیٹل دنیا کا حصہ اس طرح ہے کہ اس کے پاس ٹیلی کمیونیکیشن رابطوں کے لیے موبائل فونز تو موجود ہیں مگر ان میں روایتی موبائل ڈیوائسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔

موبائل فون صارفین کی رجسٹرڈ تعداد 183.2 ملین

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ رواں برس مارچ کے مہینے تک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں موبائل فون صارفین کی رجسٹرڈ تعداد 183.2 ملین بنتی تھی جبکہ تھری جی اور فور جی سروسز استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباﹰ 98.2 ملین تک پہنچ چکی تھی۔

ان صارفین کی اکثریت شہری علاقوں کی رہائشی ہے مگر دور دراز کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بھی اب موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

Pakistan | Verkauf von Mobiltelefonen
عام صارفین کے لیے موبائل فون کے ذریعے رقوم کی فوری منتقلی بھی ایک بڑی سہولت ہےتصویر: Ismat Jabeen/DW

پاکستان میں اس وقت چار بڑی ٹیلی کوم کمپنیاں موبائل سروسز مہیا کر رہی ہیں۔ ان میں اپنے صارفین کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست کمپنی جاز ہے۔ پی ٹی اے کے مطابق جاز کے فور جی صارفین کی تعداد اس سال مارچ میں 28.68 ملین ہو چکی تھی، جس کے بعد زونگ موبائل سروس کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بعد ٹیلی نار اور چوتھے نمبر پر یو فون کی موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس آتی ہے۔

پاکستان میں موبائل فونز کی پیداواری صنعت

پاکستان میں گزشتہ برسوں میں جس طرح موبائل فون کے استعمال کی منڈی نے ترقی کی ہے، اس کے پیش نظر ملک میں سمارٹ فونز سمیت موبائل فونز کی پیداواری صنعت نے بھی بے تحاشا ترقی کی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں موبائل فونز تیار کرنے والے کئی جدید صنعتی یونٹ کام کر رہے ہیں، جہاں ہر سال کروڑوں موبائل ڈیوائسز تیار کی جاتی ہیں۔

مقامی سطح پر موبائل فونز کی پیداواری صنعت نے ایسے فونز کی درآمد کی شرح کو بھی اب پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس سال جنوری سے جولائی تک کے عرصے میں پاکستان میں موبائل فون تیار کرنے والے صنعتی اداروں نے 12.27 ملین موبائل فونز تیار کیے جبکہ اسی مدت میں درآمد کردہ موبائل ڈیوائسز کی تعداد 2.09 ملین رہی۔

Pakistan | Verkauf von Mobiltelefonen
پاکستان میں مقامی طور پر تیار کردہ موبائل فونز کی فروخت میں واضح اضافہ ہو چکا ہےتصویر: Ismat Jabeen/DW

یہ رجحان پی ٹی اے کے موبائل ڈیوائس مینوفیکچرنگ کے اجازت ناموں سے متعلق ریگولیٹری نظام کے بدولت بھی ممکن ہوا۔ اس نظام کے متعارف کرائے جانے کے بعد پہلے سات ماہ کے دوران جو 12 ملین سے زائد موبائل فون تیار ہوئے، ان میں  فور جی رابطوں کے لیے استعمال ہونے والے 4.8 ملین سے زائد سمارٹ فونز بھی شامل تھے۔

پیداواری اجازت ناموں کی حامل کمپنیاں

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ خرم علی مہران نے ڈوئچے ویلے کوبتایا کہ حکومت کی جانب سے مینوفیکچررز کے لیے پاکستان میں پیداواری یونٹوں کے قیام کے حوالے سے ایک جامع موبائل مینوفیچکرنگ پالیسی متعارف کرائی گئی۔ اس پالیسی کی روشنی میں پی ٹی اے نے 28 جنوری 2021ء کو موبائل ڈیوائس مینوفیکچرنگ ریگولیشنز جاری کیے۔ ان ضابطوں کے تحت اب تک 26 کمپنیوں کو پاکستان میں موبائل فونز کی تیاری کے اجازت نامے جاری کیے جا چکے ہیں۔ ان کمپنیوں میں سامسنگ، نوکیا، اوپو، انفینکس، ٹیکنواور کیو موبائل بھی شامل ہیں۔

خرم علی مہران کے مطابق اب پاکستان میں موبائل فون مینوفیکچرنگ کا مستقبل بہت روشن ہے کیونکہ حکومتی پالیسیوں اور ڈیوائس آئیڈینٹی فیکیشن رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم (ڈی آئی آر بی ایس) کے کامیاب نفاذ کے بعد ملک میں مقامی سطح پر صنعتی ماحول سازگار ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پیش رفت سے پاکستان میں موبائل فون کی پیداوار کے شعبے پر نہ صرف مثبت اثرات مرتب ہوئے بلکہ غیر قانونی منڈی کا خاتمہ بھی ہوا۔ مزید یہ کہ تجارتی اداروں کو برابر مواقع میسر آئے اور ہر قسم کی ڈیوائسز کی درآمد کے لیے یکساں قانونی مواقع کی موجودگی سے صارفین کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔

پاکستانی لیبر مارکیٹ کے لیے مواقع

پی ٹی اے کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ خرم علی مہران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب متحدہ عرب امارات اور وسطی ایشیائی ممالک کی منڈیوں میں فروخت ہونے والے چینی برانڈ کے موبائل فونز پاکستان میں بھی تیار ہوں گے، جیسےکہ OPPO یا VIVO کمپنیوں کی موبائل ڈیوائسز۔

انہوں نے کہا، ''چونکہ پاکستان میں لیبر سستی ہے، اس لیے پیداواری لاگت بھی کم رہے گی جو کہ پیداواری اداروں کے لیے ایک پرکشش پہلو ہو گا۔ یوں اس شعبے میں پاکستان کی برآمدات بڑھیں گی اور اس سیکٹر میں ملک کا مجموعی درآمدی بل بھی کم ہو جائے گا۔‘‘

تاجر اور صارفین کیا کہتے ہیں؟

اسلام آباد کے رہائشی اور موبائل فونز کا کاروبار کرنے والے سجاد احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب زیادہ تر پاکستانی صارفین مقامی طور پر تیار کردہ موبائل فونز خرید رہے ہیں، جن میں انفینکس اور ٹیکنو سرفہرست ہیں۔ سجاد علی کے مطابق ایسے فونز کی قیمتیں 15 ہزار روپے سے لے کر 30 ہزار روپے تک ہوتی ہیں اور ایسی ڈیوائسز کی مانگ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ بہت سے صارفین بہت مہنگے فونز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا، ''کچھ عرصہ پہلے تک سب سے زیادہ سیل اور مانگ اوپو اور ویوو برانڈ کے موبائل فونز کی ہوتی تھی مگر اب صورت حال بدل رہی ہے۔‘‘

دوسری طرف جاز نامی ٹیلی کوم کمپنی کے اسلام آباد کے رہائشی ایک فور جی صارف صادق علی نے ملک میں موبائل فون اور موبائل انٹرنیٹ سروسز کے معیار پر تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں موبائل ٹیلی کوم سروسز متعلقہ کمپنیوں کی طرف سے وعدہ کردہ رفتار اور معیار کی حامل ہرگز نہیں ہوتیں۔

انہوں نے کہا، ''یہ سراسر دھوکا ہے کیونکہ زیادہ تر فور جی اور تھری جی کے نام پر صرف ٹو جی سروسز مہیا کی جا رہی ہوتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ فور جی کنکشن کے ساتھ موبائل پر ڈاؤن لوڈ اسپیڈ بہت تیز ہو، لیکن ایسا ہوتا کبھی نہیں۔‘‘

صادق علی نے بتایا کہ انہیں گزشتہ ماہ کراچی سے بلوچستان کے ایک اندرونی علاقے تک جانا پڑا، تو ساڑھے چار سو میل کے پورے راستے میں 90 فیصد فاصلے تک تو جاز کا نیٹ ورک ہی کام نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا، ''اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں دوران سفر کسی سے رابطہ تو تقریباﹰ کر ہی نہ سکا اور نہ ہی زیادہ تر مجھے جی پی ایس کے ذریعے اپنی لوکیشن کا اندازہ ہو سکا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں صارفین کا ایسا کوئی کوئی نیٹ ورک بھی نہیں، جو ان ٹیلی کوم کمپنیوں اور ریگولیڑی اتھارٹی پر دباؤ ڈال سکے۔‘‘