پاکستان میں امریکی شہری اغوا ہو گیا، پولیس
13 اگست 2011پولیس نے مغوی کا نام جے ای وارنر بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک کے قبائلی علاقے میں ایک ترقیاتی منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک پولیس اہلکار تجمل حسین کے حوالے سے بتایا ہے کہ چھ سے آٹھ افراد صبح ساڑھے تین بجے وارنر کی رہائش گاہ میں گھسے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت وہاں تعینات سکیورٹی اہلکار سحری کی تیاری کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ قبل ازیں روئٹرز نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس رپورٹ کی تصدیق کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تجمل حسین نے کہا: ’’دو افراد گھر کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے جبکہ تقریباﹰ چھ افراد نے پچھلا دروازہ استعمال کیا۔ انہوں نے گارڈز پر تشدد کیا اور پھر امریکی شہری کو لے گئے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ کہ وارنر کی عمر ساٹھ برس سے زائد ہے اور وہ تقریباﹰ چھ سال سے پاکستان میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں زیادہ وقت وہ اسلام آباد میں رہے لیکن لاہور بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا۔
روئٹرز نے ایک دوسرے اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ انہیں اغوا کاروں کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کو عام قرار دیا جاتا ہے، تاہم ایسی کارروائیوں کا زیادہ ہدف غیرملکی نہیں ہوتے۔
کبھی کبھی شدت پسندوں کی جانب سے غیرملکیوں کے اغوا کی وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ دہشت گرد گروپ القاعدہ سے وابستہ پاکستانی طالبان جولائی میں ایک سوئس جوڑے کے اغوا کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔
اکتیس سالہ اولیور ڈیوڈ اور اٹھائیس سالہ ڈانیئلہ کو گزشتہ ماہ کے آغاز پر اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا، جب وہ بلوچستان میں سفر کر رہے تھے۔ اس پاکستانی صوبے کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی ملتی ہیں۔ یہ جوڑا اٹھائیس جون کو بھارت سے پاکستان پہنچا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ صوبہ پنجاب سے بلوچستان میں داخل ہوا اور شاید وہاں سے ایران جانا چاہتا تھا۔
طالبان نے ان کے اغوا کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں امریکہ میں سزا پانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے رہا کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت افسر اعوان