پاکستان میں ثقافتی تنوع ، مکالمت اور ترقی کے امکانات
21 مئی 2017اقوام متحدہ کی جانب سے ثقافتی تنوع کا عالمی دن سن 2003 سے ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت کے بارے میں اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر انور شاہ نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں بتایا، ’’آج کا دن بہت اہم ہے اور اس دن کا بنیادی مقصد ثقافتی تنوع اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انور شاہ نے کہا، ’’ترقی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک مائیکرو لیول کی اور دوسری میکرو لیول کی۔ بعض اوقات بڑے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں چھوٹے مسائل دب جاتے ہیں یا پھر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن یوں ان کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی ۔‘‘
ثقافتی تنوع کے عالمی دن کی مناسبت پاکستان میں اگر موجودہ بدامنی اور دہشت گردی کے تسلسل کو دیکھا جائے تو معاشرتی طور پر پاکستان کی رنگا رنگ علاقائی ثقافتوں کے مابین ترقی کے لیے مکالمت کا عمل کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ معروف ماہر اقتصادیات اور تجزیہ نگار اکرام ہوتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ تیسری دنیا کے اکثر ممالک دو طرح کے مسائل کا شکار ہیں اور یہ مسائل آمریت سے جڑے ہوئے ہیں۔ دراصل ثقافتی مکالمت کے لیے جمہوری اداروں کا مضبوط ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں زیادہ تر آمریت ہی رہی ہے۔ آمریت سماجی اور ثقافتی تنوع کو فروغ دینے کے بجائے اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیتی ہے۔‘‘
اکرام ہوتی نے مزید کہا، ’’اب چونکہ پاکستان کی صورتحال کسی طور بدلتی ہی نہیں تو پاکستان کے لیے واحد راستہ انفراسٹرکچر، صنعت اور تجارت میں ترقی ہے۔ ان شعبوں میں جتنی ترقی ہو گی، اتنا ہی انضمام کا عمل بڑھے گا۔ یعنی علاقائی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی، ہر طرح کا انضمام۔‘‘
آج کے حالات میں پاکستان کے موجودہ مسائل کے حل حوالے سے اکرام ہوتی نے کہا، ’’میرے خیال میں اس کا حل یہ ہے کہ سول سوسائٹی کو موجودہ حالات کے خلاف ایک بھرپور اور نتیجہ خیز مہم چلانی چاہیے، جس سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا، سماجی انضمام بڑھے گا اور اس طرح ملک ترقی کرے گا۔‘‘
پاکستان میں مختلف ثقافتوں کے نمائندہ نسلی اور ثقافتی گروپوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت کے تناظر میں ترقیاتی شعبے سے منسلک معروف ماہر اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان ایک کثیرالمذہبی، کثیراللسانی اور کثیر القومی ریاست ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ریاست میں جو بڑی متنوع شناختیں ہیں، ان کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا تو ان کی ترویج کا کام بھی نہیں ہو سکتا، جب جزو کی ترقی نہیں ہو گی تو کُل کی ترقی کیسے ممکن ہے؟‘‘
اقبال خٹک نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’’قومی زبان کے طور پر اردو اور سرکاری زبان کے طور پر انگریزی کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہ پاکستانی عوام کی اکثریت کی زبانیں نہیں ہیں۔ اردو اور انگریزی زبانیں آنا بھی اچھی بات ہے، لیکن دیگر ثقافتی رنگوں کو ساتھ لے کر چلنا بھی اتنا ہی ضرورری ہے۔ مقامی زبانیں تو پشتو، سرائیکی، سندھی، پنجابی اور بلوچی وغیرہ ہیں۔ ان زبانوں میں نہ تو ادب آگے بڑھ رہا ہے اور نہ ہی کوئی سائنسی یا علمی ترقی ہو رہی ہے۔‘‘
عصمت جبیں، اسلام آباد