پاکستان میں جنسی امتیاز کیوں بڑھ رہا ہے؟
6 نومبر 2016گزشتہ ہفتے ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں پاکستان کی پوزیشن دس برس قبل کی صورت حال سے بھی دگرگوں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کو منظم انداز سے ان سماجی سہولیات سے دور رکھا جاتا ہے، جو اس جنسی امتیاز کی بنیاد تصور کی جاتی ہیں، ان میں تعلیم، صحت، معاشی مواقع اور سیاسی اختیارات شامل ہیں۔
ماضی میں پاکستان پر بین الاقوامی برادری کا دباؤ رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں جنسی بنیادوں پر عدم مساوات کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔ سن 1979ء میں پاکستان میں وزارت برائے بہبودِ خواتین بنائی گئی تھی، جس کی وجہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حالتِ نسواں کی جانب سے دی گئی تجاویز تھیں۔ اس وزارت نے خواتین کی تعلیم، صحت، قانونی خدمات اور صوبائی اور قومی سطح پر سیاسی نمائندگی کے لیے کام کیا۔ اسی وزارت کے تحت خواتین کو تعلیم اور ہنر کے شعبوں میں قرضوں کے اجراء جیسے اقدامات بھی کیے گئے، جب کہ بچوں کی حامل خواتین کے لیے چائلڈ کیئر جیسی سہولیات بھی فراہم کی گئیں۔ ان اقدامات نے خواتین کی حالت میں کسی حد تک بہتری میں کردار ادا کیا، تاہم مردوں کی برتری والے پاکستانی معاشرے میں ان اقدامات کا استحکام ہمیشہ مشکل میں رہا، جس کی ایک وجہ مذہبی طبقے کی جانب سے مخالفت بھی رہی۔
حتیٰ کہ جب پاکستان کی وزیر اعظم بھی ایک خاتون (بے نظیر بھٹو) تھیں، تب بھی خواتین کو یہ احساس نہ ہوا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں بھی ایک خاتون ہی ہے۔ سن 2010ء میں پاکستان میں یہ وزارت ہی ختم کر دی گئی اور ماضی میں خواتین کی حالت کی بہتری کے لیے اس وزارت کی جانب سے کیے گئے تمام اقدامات کو صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
سابق وفاقی سیکرٹری رخسانہ شاہ کے مطابق صوبائی حکومتیں اس حوالے سے کوئی سیاسی عزم نہیں رکھتیں۔ ’’یوں لگتا ہے، جیسے صوبائی حکومتیں، خواتین کے حوالے سے پورے ملک میں موجود عمومی معاشرتی رویے سے ہٹ کر کچھ بھی کرنا نہیں چاہتیں۔‘‘
شاہدہ جمیل، پاکستان کی پہلی وفاقی خاتون وزیر برائے قانون، انصاف اور پارلیمانی امور تھیں۔ شاہدہ جمیل کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی جنسی عدم مساوات کو سنجیدہ معاملے کے طور پر دیکھنے کو تیار نہیں اور ان میں خود وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں۔ ’’آپ کو حیرت ہو گی کہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے علاوہ کوئی بھی خاتون ان کی جماعت (پاکستان پیپلز پارٹی) میں کسی اہم منصب پر فائز نہیں تھی۔ دیگر تمام عورتیں جماعت کے خواتین کے ونگ سے منسلک تھیں اور انہیں یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ پارٹی کی مرکزی رکن بنیں۔‘‘
شاہدہ جمیل نے بتایا کہ تیس برس تک پیپلز پارٹی نے اس معاملے کو خفیہ رکھا جب کہ خواتین کی حالت کی بہتری کے لیے اقدامات کیے بھی گئے تو ان کا مقصد اصل میں خواتین کی بہتری نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری سے داد وصول کرنا ہی رہا تھا۔