پاکستان میں سیلاب کی ہولناکیاں ابھی ٹلی نہیں
12 اگست 2010محکمے کے سربراہ قمر الزماں چوہدری نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ اس دوسری سیلابی لہر کی وجہ سے آنے والے دَس دن بہت ہی نازک اور اہم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دریائے چناب میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اور اگرچہ انتظامیہ نے پانی کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے یہاں وہاں شگاف ڈالے ہیں لیکن اِس دریا میں آنے والا سیلاب 45 لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہرملتان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
دریائے سندھ کے آس پاس بھی حالات میں ابھی کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب کے چشمہ علاقے سے ابھی بھی ایک سیکنڈ میں22,656 کیوبک میٹر سے زیادہ پانی گزر رہا ہے۔
ایک تہائی پاکستان گزشتہ دو ہفتوں سے ملکی تاریخ کے شدید ترین سیلاب کی زد میں ہے۔ شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والا سیلاب اب تک پاکستان کے 14 ملین شہریوں یا ملک کی 8 فیصد آبادی کو متاثر کر چکا ہے، سولہ سو سے زیادہ انسان ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دو ملین پاکستانی اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی تلاش میں ہیں۔
پاکستانی معیشت کا بڑی حد تک انحصار زراعت پر ہے۔ اس سیلاب نے گندم، کپاس اور گنے جیسی اہم فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ملکی معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچنے سے خبردار کیا ہے جبکہ وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ پاکستان اس سال مجموعی قومی پیداوار میں 4.5 فیصد اضافے کا ہدف حاصل نہیں کر سکے گا۔
اندازہ ہے کہ صرف زرعی شعبے کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچے گا۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کے لئے 460 ملین ڈالر کی فوری امداد کی اپیل کی ہے اور امداد بر وقت نہ پہنچنے کی صورت میں مزید ہلاکتوں اور تباہی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اِسی دوران صدر آصف علی زرداری سیلاب سے ہونے والی تباہی اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لینے کے لئے آج جمعرات کو پہلی مرتبہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ صدر زرداری عین اس وقت فرانس اور برطانیہ کے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے کے دورے پر روانہ ہو گئے تھے، جب سیلاب نے شمال مغربی پاکستان میں تباہی مچانا شروع کر دی تھی۔ اس غیر ملکی دورے سے واپس اسلام آباد پہنچنے کے دو روز بعد وہ آج جمعرات کو صوبہء سندھ کے دریائے سندھ کے کناروں پر واقع شدید متاثرہ شہر سکھر کے دورے پر گئے ہیں۔
شمال کے پہاڑی علاقوں سے لے کر سندھ کے میدانوں تک سینکڑوں شاہراہیں اور پل پانی میں بہہ گئے ہیں۔ بے شمار دیہات اور زرعی فارم زیر آب آ چکے ہیں۔ وسیع تر رقبوں پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوئی ہیں اور لاتعداد مویشی بھی مارے جا چکے ہیں۔ فضا سے اتاری گئی تصاویر میں نظر آ رہا ہے کہ کیسے پانی کے سمندر کے بیچوں بیچ یہاں وہاں خشکی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر انسان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بیٹھے امداد کا اور مسلسل جاری بارشوں کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
زمینی راستوں سے ان متاثرین تک مدد پہنچنے کا سر دست کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ متاثرین تک اشیائے خوراک اور پینے کا صاف پانی پہنچانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے، جس کے چھ ہیلی کاپٹر پہلے ہی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، اب مزید ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ امریکی بحریہ کا جہاز یو ایس ایس پیلیلیُو کراچی کی بندرگاہ پر پہنچ چکا ہے، جس پر اُنیس ہیلی کاپٹر موجود ہیں۔
اسی دوران ماہِ رمضان کا بھی آغاز ہو گیا ہے اور پہلے سے ہی بھوکے اور پیاسے سیلاب زدگان کے لئے حالات اور بھی تکلیف دہ شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ملک کے سرکردہ علماء میں سے ایک مفتی منیب الرحمان نے کہا ہے کہ مشکلات میں گھرے اور عطیات پر انحصار کرنے پر مجبور متاثرین چاہیں تو روزے چھوڑ سکتے ہیں اور اِن کا کفارہ بعد میں کسی وقت ادا کر سکتے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک