پاکستان میں فی کس آمدنی تیسری مرتبہ نچلی ترین سطح پر
26 مئی 2023ملک کی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران کیساتھ ساتھ اس وقت ملک کو درپیش شدید معاشی بحران معاشی اعداد و شمار سے بھی واضح ہے۔ گزشتہ دنوں نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی منظوری حاصل کرنے والے اعداد وشمار کے مطابق ملکی معیشت میں رواں مالی سال میں صرف 0.29 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جو تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ برس کی 6.1 فیصد شرح نمو کے مقابلے میں نمایاں طورپر کم رہی ہے۔ معیشت کا حجم مالی سال 2023 ء کے دوران کم ہو کر 341 ارب 55 کروڑ ڈالر رہ گیا جو گزشتہ برس 375 ارب 44 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ماہرین کے نزدیک سب سے تشویشناک بات رواں مالی سال میں فی کس آمدنی میں 198 ڈالرزکی گراوٹ ہے۔
عام آدمی کتنا متاثر ہوا؟
پاکستان ایک دہائی میں تیسری مرتبہ سب سے کم فی کس آمدنی والا ملک بن گیا ہے۔ مالی سال 2023 ء میں فی کس آمدنی کم ہو کر 1568 ڈالر رہ گئی، جو گزشتہ برس 1766 ڈالر تھی۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ معاشرے کے تقریباً تمام طبقات کا معیار زندگی گررہا ہے اورلوگوں کے پاس اشیا خریدنے یا خدمات حاصل کرنے کی استطاعت محددو ہوگئی جس کی وجہ سے مجموعی طور پرمعیشت میں سست روی کا رجحان ہے ۔
ماہرمعاشیات سارہ توقیر نے ڈی ڈبیلو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہوں میں اس حساب سے اضافہ نہیں ہوا جس حساب سے مہنگائی بڑھی ہے۔ اس وجہ سے شہریوں کی قوت خرید محدود ہوئی اوراسی کی وجہ سے ڈیمانڈ میں کمی آگئی۔ مہنگائی تاجروں کے لیے کاروباری اخراجات میں بھی اضافے کا سبب بنی جو کہ صارفین سے ہی وصول کیا جاتا ہے۔
حکومت کی معاشی پالیسی کی ناکامی
ماہرمعاشیات سارہ توقیرنے حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کو موجودہ حالات کا ذمہ دارقراردیتے ہوئے کہا کہ سخت مانیٹری پالیسی اورشرح سود میں بے تحاشہ اضافے کے باعث کاروباری اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے کمی آئی ۔ ان حالات میں کوئی مشینری لینا تو دور کوئی گاڑی بھی نہیں خریدتا ۔ پابندیوں اورایل سیز کے معاملے کے بعد درآمدات میں ریکارڈ کمی ہوئی جس کے باعث امپورٹ ڈیوٹیزاوردیگرٹیکس کی مد میں روینیو میں بھی خاصی کمی ہوئی ہے جو حکومتی آمدنی کا ذریعہ ہے۔
بجٹ میں عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں ؟
معاشی امور کی معروف تجریہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں حکومت بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے گی کیوں کہ آگے الیکشن ہونے کو ہیں۔ ان کا کہنا تھا،''پاکستان اس وقت سول مارشل لا میں ہے لیکن کتنے عرصے تک آپ یہ جوکچھ بھی ہورہا ہے اس کو چلائیں گے۔ یہ پالیسی پائیدار نہیں ہوتی۔ ضیاء الحق جیسے آمرکے ساتھ بھی یہ نظام پائیدارنہیں تھا نہ ہی مشرف دور میں یہ پائیدار ثابت ہوا۔‘‘
حکومتی پالیسیوں کا موجودہ حالات میں عمل دخل
ڈاکٹرہمابقائی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت ہرپالیسی ناقص ہے اور اس کا تعلق پاکستان کے ہر اس ادارے پر اشرافیہ کے قبضے سے جڑتا ہے، جو ملک کی بہتری کے لیے کام کرسکتا ہے ۔ پاکستان کا ہرادارہ جس کے پاس طاقت ہے ، وہ ریاست کے لیے کام نہیں کرتا وہ اپنے گروہ کے لیے کام کرتاہے۔ وہ اُن چند لوگوں کے لیے کام کرتا ہے اور ان کے ساتھ رابطے بناتا ہے جو اس اسٹیٹس کو کو نہ چھیڑیں۔
کوئی بھی جو اسٹیٹس کو کے چیلنج کرتا ہے یہ اس کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔ روز جو ٹی وی پرلوگ اپنا سیاسی قبلہ بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ صرف آج اورکل کی بات نہیں بلکہ یہ وہ مسلسل ہونے والی پولیٹیکل انجینرنگ ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ یہ اب اسّی اورنوے کی دھائی نہیں۔ لوگ بات کررہے ہیں مسلسل باتیں سامنے آرہی ہیں آپ ٹی وی پرپابندی لگادی لوگ ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارمز پر بات کررہے ہیں۔‘‘
جی ڈی پی گروتھ میں کمی کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟
معاشی تجزیہ نگار ذیشان مرچنٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اس وقت آپ کے کاروبار نیچے جارہے ہیں اوربیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ جب بیروزگاری بڑھتی ہے اورملک کا پہیہ نہیں چلتا تو آپ کی گروتھ کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں کاروبارنہیں ہورہا اوراس کی وجہ سے پھرٹیکسزکی وصولی کم ہوگی جس کے باعث حکومت کا ریونیوکم ہوگا تو اخراجات کیسے پورے ہونگے، تو یہ سب ایک دوسرے سے منسلک ہے۔‘‘
ڈالرکی قدرمیں اضافے سے عام آدمی کیسے متاثرہوتا ہے؟
معاشی تجزیہ نگار ذیشان مرچنٹ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عام آدمی دن بدن پریشان ہورہا ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی اورمہنگائی اس لیے بڑھ رہی ہے کہ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر روزبروز گررہی ہے ۔ روپے کی قدرگرنے کی وجہ سے جو بھی چیز جو آپ بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں وہ مہنگی ہوتی ہے اس میں آپ کی پیٹرولیم مصنوعات سے لیکرکھانے کے تیل اوربہت سی دیگر اشیا آجاتی ہیں۔ چیزیں تو مہنگی ہورہی ہیں لیکن قوت خرید نہیں بڑھ رہی اس لیے انفلیشن ہے، جس کا اثر ایک عام آدمی پرپڑتا ہے۔‘‘