1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں کٹر اسلام پسند اقتدار میں آ سکتے ہیں، جرمن ماہر

3 مارچ 2011

پاکستان کے حالات پر نظر رکھنے والی جرمن ماہر بریٹا پیٹرسین کے مطابق اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت کو دارالحکومت اسلام آباد تک کی صورتحال پر بھی کوئی کنٹرول حاصل نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/10Ses
تصویر: AP

پاکستان میں جرمنی کی ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کی ملکی سطح پر نمائندگی کرنے والی Britta Petersen نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان کی حکومت موجودہ حالات میں بہتری کے لیے بہت کچھ کر سکنے کی حالت میں نہیں ہے۔

ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کی پاکستان میں سربراہ کے مطابق شہباز بھٹی کے قتل سے یہ اشارے بھی ملتے ہیں کہ پاکستان میں ملکی سکیورٹی ڈھانچے کے اندر اور باہر کٹر اسلام پسند قوتیں خود کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ بریٹا پیٹرسین نے کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں وسط مدتی بنیادوں پر یہ امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان میں اقتدار ان قوتوں کے ہاتھ میں آ جائے گا۔

Heinrich Böll Stiftung in Berlin
برلن میں ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کا صدر دفترتصویر: picture-alliance/ dpa

اس جرمن خاتون ماہر کے بقول شہباز بھٹی کا قتل، جو کہ پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق متنازعہ قانون پر تنقید کرنے والوں میں شامل تھے، اس جنوبی ایشیائی ملک میں نظر آنے والی تبدیلیوں کے لیے ڈرامائی نتائج کا حامل واقعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پیٹرسین کے مطابق ایک وفاقی وزیر کے اس قتل کے بعد اب اہم بات یہ ہو گی کہ مرکز میں حکمران مخلوط حکومت میں شامل بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا رد عمل کیسا ہوتا ہے اور آیا یہ پارٹی خود کو فیصلہ کن سیاست سے اور بھی پیچھے کھینچ لیتی ہے۔

جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی سے نظریاتی قربت رکھنے والی بوئل فاؤنڈیشن کی پاکستان میں سربراہ کے بقول ایسا کوئی بھی دعویٰ بڑا غیر یقینی ہو گا کہ پاکستان میں فوج اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ تاہم قابل ذکر بات یہ بھی ہو گی کہ آیا مستقبل قریب میں پاکستان میں طاقت کا کوئی ایسا خلا بھی دیکھنے میں آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں فوج صورت حال کے ہاتھوں مجبور ہو کر اقتدار پر قبضہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔

Pakistan Minister für Minderheiten Shahbaz Bhatti
آنجہانی شہباز بھٹیتصویر: picture alliance/dpa

اس سلسلے میں اپنے انٹرویو میں بریٹا پیٹرسین نے یہ حوالہ بھی دیا کہ توہین رسالت کے اسی متنازعہ قانون کے پس منظر میں پاکستان میں قریب دو ماہ قبل سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وزیر اعظم گیلانی کی حکومت نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ توہین رسالت سے متعلق متنازعہ قانون کو کسی ممکنہ ترمیم کے نقطہ نظر سے ہاتھ بھی نہیں لگائے گی۔

اس پر طالبان اور دیگر شدت پسند اسلامی قوتوں کو اتنی شہ ملی کہ اب نتیجہ شہباز بھٹی کے قتل کی صورت میں نکلا ہے۔ اس تناظر میں یہ بات اور بھی اہم ہو جاتی ہے کہ اب اسلام آباد میں پاکستان کی وفاقی حکومت کا اس متنازعہ قانون کے بارے میں آئندہ رویہ کیسا ہو گا۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں