پاکستان میں ہر 20 میں سے نو افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار
3 اکتوبر 2021سال 2020ء کے غیر سرکاری سطح پر جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں سب سے بڑے ملک پاکستان میں 46 فیصد سے زائد شہری بلند فشار خون کا شکار ہیں۔ پاکستان ہائپر ٹینشن لیگ نامی طبی تنظیم کے مطابق ہر 20 میں سے نو سے بھی زائد پاکستانیوں کو ہائی بلڈ پریشر کی طبی حالت کا سامنا ہے اور ایسے شہریوں میں نوجوانوں کا تناسب ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ ہو چکا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ صورت حال اس لیے پریشان کن ہے کہ ملک میں علاج معالجے کی تسلی بخش سہولیات کی تو بہت سے شہری علاقوں میں بھی شدید کمی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں حالت اس سے بھی ابتر ہے۔ ماہرین اپنی اس تشویش کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ طویل عرصے تک خون کے دباؤ کا بہت زیادہ رہنا کسی بھی انسان کو دل کی مختلف بیماریوں اور گردوں کے امراض کا شکار کر دینے کے علاوہ ہیمریج اور فالج تک جیسے طبی نتائج کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
اسی لیے اگر عوامی سطح پر صحت بخش غذائی عادات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہائی بلڈ پریشر کے خلاف عوامی شعور بیدار نہ کیا گیا، عام شہریوں کو بلند فشار خون کے کثیرالجہتی نقصانات سے نتیجہ خیز انداز میں آگاہ نہ کیا گیا، تو آئندہ برسوں میں پاکستان میں پبلک ہیلتھ کے شعبے کو درپیش حالات بحرانی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
ہائی بلڈ پریشر کی دو قسمیں
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں امراض دل کے ماہر سرجن عدنان طاہر نے بلڈ پریشر کے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہائی بلڈ پریشر کی دو اقسام ہوتی ہیں: ابتدائی ہائپر ٹینشن اور ثانوی ہائپر ٹینشن۔ ان کے مطابق ابتدائی ہائپر ٹینشن ہی وہ طبی شکایت ہے، جس کا عموماً 90 سے 95 فیصد تک عوام کو سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی ہائپر ٹینشن کی آج تک کوئی ایک اور بالکل درست یا حتمی وجہ طے نہیں کی جا سکی کیونکہ یہ حالت کئی ممکنہ اسباب کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر عدنان طاہر نے بتایا کہ پانچ سے 10 فیصد تک واقعات میں جب ہائپر ٹینشن دیگر امراض، خاص کر گردے کی مختلف بیماریوں کی وجہ سے لاحق ہو، تو اسے ثانوی ہائپر ٹینشن کہتے ہیں۔
انسانی جسم میں شریانوں سے گزرنے والے خون کا موازنہ کسی پائپ سے گزرنے والے پانی کے ساتھ کرتے ہوئے کارڈیک سرجن عدنان طاہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جس طرح کسی پائپ میں سے پانی ایک مخصوص پریشر کے ساتھ ہی گزر سکتا ہے اور پریشر بہت زیادہ ہو جانے پر وہ پائپ پھٹ بھی سکتا ہے، بالکل یہی معاملہ خون، شریانوں اور بلڈپریشر کا بھی ہے۔ اگر رگوں میں خون کا دباؤ مسلسل بہت زیادہ رہے، تو دل کے دورے، فالج کے حملے یا پھر گردوں کے ناکارہ ہو جانے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔”
’’خاموش قاتل‘‘
ڈاکٹر عدنان طاہر کے بقول پاکستان میں تقریباً 52 فیصد آبادی ہائی بلڈ پریشر کے مرض کا شکار ہے۔ اس میں سے 42 فیصد متاثرین کو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض کیسے بنے۔
ہائی بلڈ پریشر کو اکثر طبی ماہرین اس لیے ''خاموش قاتل‘‘ قرار دیتے ہیں کہ بلند فشار خون کی ایسی کوئی ظاہری علامات نہیں ہوتیں، جن کی مدد سے اس کا ابتدائی حالت میں ہی پتہ چلایا جا سکے۔ اس لیے مریض کو اس مسئلے کا علم تب ہوتا ہے، جب اس کی صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ ڈاکٹر عدنان طاہر نے بتایا، ''اگر کسی شخص کے خاندان میں ہائی بلڈپریشر کے مریض رہے ہوں، تو متعلقہ فرد کے لیے اس کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی انسان اگر دیگر امراض میں بھی مبتلا ہو، جیسے ذیابیطس، گردوں کی مختلف بیماریاں، ہائی کولیسٹرول اور تھائی رائڈ کے مختلف امراض، تو پھر ہائی بلڈپریشر کا خطرہ بھی دگنا ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے امراض کے علاج کے لیے لی جانے والی ادویات بھی بلند فشارخون کا باعث بن سکتی ہیں۔‘‘
دوران حمل اموات کی بڑی وجہ بھی
اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے فیملی پلاننگ شعبے کی سابقہ انچارج اور اب اسی شہر میں اپنا نجی کلینک چلانے والی سیدہ نگہت گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں دوران حمل خواتین کی اموات میں سے 20 فیصد سے زائد کیسز میں بنیادی وجہ ہائی بلڈ پریشر ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس چیک اپ کے لیے آنے والی تقریباً ہر دوسری خاتون کو بلند فشار خون کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ خواتین میں زچگی کے دوران اموت اور کئی طرح کی طبی پیچیدگیوں کی ایک اہم وجہ پری ایکلیمپسیا (pre-eclampsia) ہوتی ہے۔ پری ایکلیمپسیا کی علامات کی آسانی سے شناخت نہیں کی جا سکتی مگر ان میں بلند فشار خون بھی ایک کلیدی علامت ہوتی ہے۔
سیدہ نگہت گیلانی کے مطابق، ''حاملہ خواتین میں سر درد، چیزوں کا دوہرا دکھائی دینا، نظر میں دھندلا پن یا کم دکھائی دینا یا سر چکرانا پری ایکلیمپسیا کی علامات ہو سکتی ہیں، جن کے محرکات میں سے ہائی بلڈ پریشر ایک بڑا محرک ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں مریضہ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ ماں بچے میں سے کسی کی بھی صحت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘
60 سالہ مزدور کا ذاتی تجربہ
اسلام آباد کے نواح میں رہنے والے 60 سالہ فرید الدین نے، جو محنت مزدوری کرتے ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ گزشتہ 10 سال سے بلڈ پریشر میں کمی کے لیے مختلف ادویات استعمال کر رہے ہیں لیکن اب تک کوئی مستقل افاقہ نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اب تو اکثر ان کی طبعیت زیادہ خراب رہنے لگی ہے۔
اقتصادی طور پر معاشرے کے محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے فریدالدین نے مزید کہا، "ذاتی طبی وجوہات کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ جس طرح سے ملک میں مہنگائی اور منافع خوری کا بازار گرم ہے، غریبوں کے لیے زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، تو ایسے پریشان کن حالات میں ایک عام شہری تو پھر بلڈ پریشر کا مریض ہی بنے گا کہ نہیں؟”
ہائی بلڈ پریشر سے کیسے بچا جائے؟
ڈاکٹر شاہانہ بدر راولپنڈی اور اسلام آباد کے تقریباً سبھی سرکاری ہسپتالوں کی میڈیکل ایمرجنسی میں ہاؤس جاب کر چکی ہیں اور کارڈیالوجی ان کے لیے خصوصی دلچسپی کا حامل طبی شعبہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس ایمرجنسی میں روزانہ ہائپر ٹینشن کے تقریباً سو مریض آتے ہیں، جن میں سے کئی کی حالت نازک ہوتی ہے اور ان میں سے کئی کا انتقال بھی ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عام تاثر یہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے عارضے کا سامنا صرف عمر رسیدہ افراد ہی کو کرنا پڑتا ہے، ''لیکن یہ تاثر غلط ہے۔ نوجوانوں میں بھی اس مرض میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خاص کر ان مریضوں میں، جن کو گردوں کےمسائل درپیش ہوتے ہیں یا وہ جو ڈائیالیسس کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر شاہانہ بدر کے بقول، ''گردوں کے امراض کے شکار مریضوں کے گردوں کی شریانیں پہلے ہی سکڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کے لیے بلند فشار خون جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ 18 سال سے زیادہ عمر کے تمام افراد کو ہر ہفتے کم از کم دو مرتبہ اپنا بلڈ پریشر ضرور چیک کرنا یا کرانا چاہیے۔
اس سوال کے جواب میں کہ ہائی بلڈ پریشر سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر شاہانہ بدر نے کہا، ''تمباکو نوشی اور الکوحل سے پرہیز کیا جائے، کیونکہ یہ دونوں کئی طرح کے طبی مسائل کا سبب بنتی ہیں، جن میں بلند فشار خون بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سادہ خوراک، ورزش اور باقاعدگی سے واک کرنا ایسی صحت بخش عادات ہیں، جو بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔‘‘