پاکستان: پرتشدد واقعات میں کمی لیکن شدت پسندی کا پرچار جاری
18 دسمبر 2015پاکستانی حکام نے لال مسجد کے امام مولانا عبدالعزیز غازی کو اپنے انتہا پسندانہ خیالات کے برملا اظہار سے روک دیا ہے۔ تاہم پھر بھی وہ انتہا پسندوں اور طالبان کے لیے ایک قابل عزت شخصیت ہیں۔ 2007ء میں لال مسجد اور مولانا عبدالعزیز اس وقت دنیا بھر میں اچانک مشہور ہو گئے تھے، جب پاکستانی دارالحکومت میں ان کے زیر انتظام چلنے والے ادارے جامعہ حفصہ کی طالبات نے بچوں کی ایک لائبریری پر قبضہ کر لیا تھا۔
مولانا کی جانب سے شریعت کے نفاذ کے اعلان اور اغوا جیسے واقعات کے بعد حکومت نے غازی برادران کے خلاف آپریشن کیا تھا۔ اس کارروائی میں عبدالعزیز کے بھائی عبدالرشید غازی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ مولانا عبدالعزیز کو برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تاہم وہ جلد ہی رہائی پانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
ان تمام واقعات کو ایک طویل وقت گزر جانے کے بعد بھی مولانا عبدالعزیز کے نظریات میں کوئی واضح تبدیلی یا کمی نہیں آئی۔ انہوں نے اپنا لہجہ نرم ضرور کیا ہے لیکن وہ اپنے مشن پر قائم ہیں۔ سولہ دسمبر سن 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد شدت پسندوں کے خلاف حکومت اور عوام کی رائے میں ایک بڑی تبدیلی بھی دیکھی گئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ مولانا عبدالعزیز نے پشاور حملے کی مذمت نہیں کی تھی، جس میں تقریباﹰ 150 افراد مارے گئے تھے۔ عبدالعزیز غازی کی طرف سے مذمت سامنے نہ آنے کے بعد اسلام آباد کے وکیل محمد جبران ناصر نے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا تھا، جس میں لبرل طبقے نے نفرت آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دینے پر عبدالعزیز کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ مظاہرہ بعد ازاں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
پاکستانی سکیورٹی تجزیہ نگار امتیاز گل نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں تھا لیکن اب وہ کچھ راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
محمد جبران ناصر کا البتہ کہنا ہے کہ انتہا پسندوں کے خلاف عسکری مہموں اور حکومتی کریک ڈاؤن نے عوام کی توجہ بٹا دی ہے لیک اصل مسئلہ وہیں برقرار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بنیادی مسئلہ انتہا پسندی کے جنم لینے کا ہے، جو درسی کتب اور مدرسوں میں اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
محمد جبران ناصر نے زور دیا کہ عوام کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اداروں میں مذہبی رہنماؤں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس وقت ہم سرطان کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش میں ہیں لیکن ہم اس بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کر رہے کہ یہ سرطان پیدا کیوں ہو رہا ہے۔‘‘
دوسری طرف پاکستان میں حقوق نسواں کی عملبردار اور معروف نسائیت پسند ماروی سرمد اسلام آباد حکومت پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ صرف ایسے ہی مذہبی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرتی ہے، جو فوج کے خلاف ہوتے ہیں۔