ہزاروں پاکستانی مدارس میں اصلاحات، منصوبہ ناکام کیوں رہا ؟
30 جون 2015سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے سن دو ہزار ایک میں ایک آرڈیننس کے ذریعے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ قائم کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان بھر میں قائم ہزاروں دینی مدارس میں دی جانیوالی روایتی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کر کے مدارس سے شدت پسندانہ سوچ کا خاتمہ کرنا تھا۔
اس بورڈ کے زیر اہتمام اب تک صرف تین ماڈل مدارس قائم کیے جاسکے ہیں۔ ان مدارس میں اسلام آباد میں لڑکیوں کے لئے قائم مدرسے میں چھ سو طالبات جبکہ کراچی میں دو سو اور سکھر میں ایک سو اسی طلباء زیر تعلیم ہیں۔
پی ایم ای بی کے تیس رکنی بورڈ میں تعلیم، مذہبی امور، سائنس وٹیکنالوجی کے وفاقی سکریٹریوں کے علاوہ اعلی تعلیمی بورڈ (ایچ ای سی) کے چئیرمین، چاروں صوبوں کے سکریٹری تعلیم ، اسلامی نظریاتی کونسل کے دو ارکان اور پانچ مسالک کے مدارس بورڈ کے سکریٹری شامل ہیں۔
تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنی، بریلوی، شیعہ، دیوبندی اور اہلحدیث مکتبہ فکر کے مدارس بورڈ میں سےکسی ایک نے بھی ابھی تک پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کی۔
ان پانچوں مسالک کے بورڈز کے ساتھ اٹھائیس ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، جن میں سب سے زیادہ دیوبندی مکتبہ فکر کے بورڈ وفاق المدارس کے ساتھ سولہ ہزار مدارس رجسٹرد ہیں۔
پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ چودہ برس کا عرصہ گزر جانے کے باجود دینی مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے فعال کردار کیوں نہیں ادا کر سکا ؟ اس سوال کے جواب میں پی ایم ای بی کے چئیرمین ڈاکٹر عامر طاسین کا کہنا ہے کہ اس میں ادارے کے سربراہ کے طور پر غیر موزوں افراد کی تقرری اور دیگر مسالک کے مدارس بورڈ کا عدم تعاون شامل ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس ادارے کے پہلے کل وقتی سربراہ ہیں جن کا تقرر مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کے بعد کیا گیا۔ جامعہ کراچی سے تقابل ادیان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے اڑتالیس سالہ ڈاکٹر عامر تاسین کا کہنا ہے، "مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی عدم فعالیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا پہلا اجلاس سن دو ہزار چار میں ہوا تھا جبکہ دوسرا اجلاس اس کے گیارہ سال بعد رواں سال میں نے اپنی تقرری کے بعد گیارہ مارچ کو کرایا۔"
انہوں نے کہا کہ ان سے قبل ایک ریٹائرڈ وفاقی سکریٹری اور ایک ریٹائرڈ آرمی افسر پی ایم ای بی کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق بورڈ کے دوسرے اجلاس میں جو اہم فیصلے کیے گئے ان میں پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا نام تبدیل کر کے پاکستان اسلامک ایجوکیشن کمیشن رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ الحاق کے خواہشمند مدارس کا اندراج کرنے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بورڈ نے کوئٹہ، پشاور اور ملتان میں بھی ماڈل مدارس قائم کرنے کی منظوری دی ہے۔
وزارت مذہبی امور کے ماتحت پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے لئے حکومت نے اس سال وفاق بجٹ میں پانچ کروڑ تیس لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔ ڈاکٹر عامر کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ مطلوبہ رقم سے کم ہے'لیکن کیا کریں کا م تو چلانا ہے۔'
ڈاکٹر عامر نے کہا کہ اس وقت آٹھ ہزار ایسے مدارس بھی ہیں، جن کا الحاق پانچوں مسالک کے مدرسہ بورڈ میں سے کسی ایک کے بھی ساتھ نہیں، ’’ابتدائی طور پر ایسے پانچ سو مدارس نے ہمارے ساتھ الحاق پر رضامندی ظاہر کی ہے، جو اس سے پہلے کسی بھی مدرسہ بورڈ کے ساتھ منسلک نہیں۔ اس سلسلے میں کام شروع ہو چکا ہے اور مدارس کو رجسٹریشن فارم پرُ کرنے کے لئے دیے جاچکے ہیں۔ "
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے فروغ اور اپنے اپنے مسالک کا پرچار کرنیوالے ہزاروں مدارس کو کب مرکزی دھارے میں لایا جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر عامر نے کہا کہ حکومت نے دو ہزار دس میں پانچوں مسالک کے مدرسہ بورڈز کے منتظمین سے مذاکرات کیے تھے، جن میں ان منتظمین نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انہیں الگ الگ مدرسہ بورڈ کے طور پر مستقل حثیت دے، جسے حکومت نے مبینہ طور پر تسلیم کر لیا ہے اور اب جلد ہی اس کا اعلان ہوجائے گا۔ ڈاکٹر عامر نے کہا کہ "ان پانچوں مدرسہ بورڈز کو مستقل حیثیت ملنے کے بعد ہمارا ان سے تعلق نہیں رہے گا۔"