پاکستان: چینی شہریوں کی گاڑی پر ایک اور خود کش حملہ
21 اگست 2021پاکستانی وزارت داخلہ کے مطابق 20 اگست کی شام کو صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر میں چینی شہریوں کو لے جانے والی جس گاڑی پر خود کش حملہ ہوا، اس میں قریب ہی سڑک پر کھیلنے والے دو بچے ہلاک ہو گئے جب کہ ایک چینی اور دو پاکستانی شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بلوچ وارڈ نامی علاقے میں شام کو سات بجے کے قریب اس وقت پیش آیا جب چینی شہری علاقے میں زیر تعمیر ایک منصوبے پر کام کرنے کے بعد شام کو گاڑیوں میں سوار ہو کر اپنے کیمپ کی طرف واپس جا رہے تھے۔
اطلاعات کے مطابق یہ چینی شہری ’ایسٹ بے ایکسپریس وے‘ پروجیکٹ کی تعمیر سے وابستہ ہیں۔ پولیس حکام نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس خود کش حملے میں، ’’ایک چینی شہری کو معمولی زخم آئے ہیں۔‘‘
پولیس حکام کے مطابق چینی انجینیئرز تین گاڑیوں میں سوار تھے اور سکیورٹی فورسز کے حصار میں یہ قافلہ آ رہا تھا۔ تاہم راستے میں جب ایک سکیورٹی افسر نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔
گزشتہ ماہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے بالائی کوہستانی علاقے میں بھی ایک خود کش حملے میں چینی انجینیئروں کی ایک بس کو نشانہ بنایا گيا تھا جس میں دس چینی اور تین پاکستانیوں سمیت 13 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
گوارد میں اس دھماکے کے چند گھنٹے بعد ہی کالعدم تنظیم بلوج لبریشن آرمی نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ علیحدگی پسند ممنوعہ تنظیم علاقے میں مسلح کارروائیاں کرتی آئی ہے اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ساتھ نبرد آزما ہے۔
چین اور پاکستان کے درمیان اربوں ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اقتصادی راہداری کے کئی منصوبے بلوچستان کے بندر گاہی شہر گوادر میں بھی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت خطے میں کئی توانائی، سڑکیں اور کاشتکاری کی ترقیاتی منصوبے زیر تعمیر ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ 14 جولائی کو بھی کوہستان کے ضلع داسو میں توانائی کے زیر تعمیر ہائیڈرو پلانٹ کے پاس ہی چینی انجینیئرز کی ایک بس پر بھی خود کش حملہ ہوا تھا۔ اس بس میں سوار تقریبا دس چینی ورکرز اور تین پاکستانی شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حملے میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان ایجنسی این ڈی ایس کے شامل ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کے مطابق ان عناصر کو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور معاشی روابط پسند نہیں ہیں اس لیے وہ تخریبی کارروائیوں پر آمادہ ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ داسو حملے کے لیے دھماکا خیز مواد سے بھری جو گاڑی استعمال کی گئی تھی، وہ افغانستان سے پاکستان لائی گئی تھی۔ ان کے مطابق ، ''ہماری تفتیش کے مطابق اس حملے کی منصوبہ بندی اور حملہ کرنے کی تمام پلاننگ کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی گئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی ایجنسی این ڈ ی ایس کے درمیان واضح گٹھ جوڑ ہے۔‘‘
تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے دو دن بعد اپنے ایک بیان میں ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔ پاکستان بھارت پر بلوچستان میں سرگرم ایسی کالعدم تنظیموں کی اعانت کا بھی الزام عائد کرتا ہے۔ بھارت ماضی میں کئی بار سی پیک پروجیکٹ کی یہ کہہ کر مخالفت بھی کر چکا ہے کہ اس کے بعض علاقے پاکستان کے زیر قبضہ متنازعہ علاقوں سے گزرتے ہیں۔