پاکستان: کرم 'دہشت گردانہ حملہ سراسر حیوانیت' ہے، شہباز شریف
22 نومبر 2024پاکستان میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز مسلح افراد نے ملک کے شورش زدہ شمال مغرب میں شیعہ مسلمانوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر فائرنگ کر دی جس میں کم از کم 42 افراد ہلاک اور تقریبا 20 زخمی ہو گئے۔
ہلاک ہونے والوں میں متعدد خواتین اور بچے شامل ہیں، جبکہ بہت سے زخمیوں کی حالت سنگین ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
یہ حملہ صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں ہوا، جہاں حالیہ مہینوں میں اکثریتی سنی مسلمانوں اور اقلیتی شیعہ مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ تازہ حملے علاقے میں فرقہ وارانہ تصادم میں اضافے کے عکاس ہیں۔
فوری طور پر کسی بھی گروپ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
پاکستان میں مسلح افراد کا مسافر گاڑیوں پر حملہ، کم از کم 38 افراد ہلاک
دونوں جانب سے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ
یہ حملہ مندوری چرخیل کے علاقے میں ہوا، جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی ایک عام بات ہے جبکہ زمینی تنازعات کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔
ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے بتایا کہ تقریباً 200 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ پاراچنار سے پشاور جا رہا تھا کہ اس پر زبردست فائرنگ کی گئی۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ "تقریباً 10 حملہ آور ان واقعات میں ملوث تھے، جنہوں نے سڑک کے دونوں اطراف سے اندھا دھند فائرنگ کی۔"
ایک مقامی سرکاری اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ تقریباﹰ دو سو شیعہ مسلمانوں پر مشتمل مسافروں کا یہ قافلہ پولیس کی حفاظت میں سفر کر رہا تھا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آوروں نے کئی منٹ تک مسلسل ہائی وے کے دونوں طرف سے گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
جمعے کی صبح قریبی شہر پاراچنار میں ہسپتال کے باہر جمع لوگوں کا ہجوم زخمیوں کا انتظار کر رہا تھا۔
پاکستان: کرم میں قبائل کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 30 ہلاک
دہشت گردانہ حملہ
پاکستانی وزیر داخلہ نے اس حملے کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا، جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ "ملک میں امن کے دشمنوں نے معصوم شہریوں کے قافلے پر حملہ کیا ہے، جو سراسر حیوانیت کے مترادف ہے۔"
سرحدی علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی عروج پر
یہ حملہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ہوا، جہاں حالیہ مہینوں میں سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سنی اکثریتی پاکستان میں کرم ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں نسبتاً شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
ایران میں پاکستانی زائرین کی ایک اور بس حادثے کا شکار
یہ افغانستان کی سرحد کے قریب بھی واقع ہے، جہاں شیعہ مخالف عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک اسٹیٹ جیسے عسکریت پسند گروہ آسانی سے اپنا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کرم میں ہی جولائی میں زمینی تنازعے سے منسلک جھڑپوں میں دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے سبب کشیدگی اور تشدد میں اضافہ ہوا۔
جمعرات کو فائرنگ کا یہ واقعہ اس ہائی وے پر پیش آیا، جہاں گزشتہ ماہ مسافر گاڑیوں پر ایک اور حملے کے بعد، اسے بند کر دیا گیا تھا اور پھر اسے صرف ان لوگوں کے لیے دوبارہ کھولا گیا جو پولیس کی حفاظت میں سفر کر رہے ہوں۔
اس ہفتے بدھ کے روز اسی صوبے میں ایک سکیورٹی چوکی پر خودکش حملے میں 12 فوجی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)