تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک: کیا ورکرز مار کھا سکیں گے؟
15 مئی 2022پاکستان کے نئے سیاسی منظر نامے کی ایک جھلک کل پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں دیکھی گئی جہاں پر ایک چرچ کی زمین کو آڑ بنا کر پی ٹی آئی کو صرف چند گھنٹے پہلے جلسے کی جگہ بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ اس موقع پر پولیس اور پی ٹی آئی ورکرز میں تصادم اور ہاتھا پائی کے مناظر بھی دیکھے گئے اور کئی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ڈسٹرکٹ پولیس آفییسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''آپ نے جلسہ گاہ کو تباہ کر دیا، متبادل جگہ کوئی سکیورٹی نہ دی۔ پھر عمران خان کو سکیورٹی نہ دے کر ان کی جان کو خطرے میں ڈالا۔ جیسے ہی حالات بہتر ہوئے میں آپ پر بھی ایف آئی آر کٹواؤں گا۔ ‘‘
ایک دوسری ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ میں بڑی مشکل سے عمران خان کو اسٹیج پر پہنچایا گیا۔ اس تگ و دو میں وہ ( شہباز گل) اور شاہ محمود قریشی زخمی بھی ہوئے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سیالکوٹ کی صورتحال آنے والے دنوں کے حالات کا محض ایک ''ٹریلر‘‘ بھی ہو سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کا سیالکوٹ میں جلسہ
سیالکوٹ میں عمران خان کی طرف سے اپنے قتل کی سازش کے انکشاف اور اس کے ذمہ داروں کے نام ایک ویڈیو پیغام میں محفوظ کئے جانے کے اعلان نے صورتحال کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ ادھر کراچی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کے خلاف دہشت گردی اور اقدام قتل کا مقدمہ گلشن معمار کے تھانے میں درج کر لیا گیا ہے۔
پاکستان میں پی ٹی آئی کے کامیاب جلسوں میں ''متنازعہ خیالات ‘‘ کے اظہار کے بعد حکومت پر اس دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے سے روکا جائے۔ یہ دباؤ ڈالنے والے مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی گذشتہ حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف سمیت مسلم لیگ نون کے کئی اہم لیڈروں کو جیل میں ڈال کر احتجاجی تحریک کو بڑی حد تک غیر مؤثر بنادیا گیا تھا لیکن موجودہ حکومت کی ''ہاتھ ہولا‘‘ رکھنے کی پالیسی کی وجہ سے عمران خان بڑے جلسے کر کے نہ صرف ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ میں کامیاب اضافے کی وجہ سے اپنی باتیں منوانے کی پوزیشن میں آتے جا رہے ہیں۔
تصادم کی صورتحال
پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار میاں سیف الرحمٰن نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ ایک طرف اشتعال انگیر تقریریں اور بپھرے ہوئے جذباتی کارکنوں کا جوش و جذبہ ہے اور دوسری طرف قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے لیے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا حکومتی عزم ہے، یہ صورتحال ملکی حالات کو تصادم کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں پی ٹی آئی میں پیپلز پارٹی کی طرح کوڑے کھا کر، شاہی قلعہ بھگت کر اور جیلیں کاٹ کر ثابت قدم رہنے والے کارکن نہیں ہیں۔ یہ صرف بھٹو ہی تھا جس کے لیے لوگ خود سوزی کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے تھے۔ ''پی ٹی آئی کے کارکن سوشل میڈیا پر تو طوفان برپا کر سکتے ہیں، اور جلسوں میں رونق لگا سکتے ہیں لیکن لاٹھی اور گولی کا مقابلہ کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہو گا۔‘‘
سیف الرحمٰن کے بقول، ''میرے خیال میں عوام کا ایک حصہ عمران خان کے ساتھ اب بھی اندھی عقیدت رکھتا ہے اور اس کا بیانیہ بھی عوام کو متاثر کر رہا ہے لیکن ایک مؤثر احتجاجی تحریک کو زیادہ دیر تک چلانا (خاص طور پر کسی غیر جمہوری سپورٹ کے بغیر) پی ٹی آئی ورکرز کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ اگر عمران حکومت نے ڈیلیور کیا ہوتا تو اس کی احتجاجی مہم کو عوامی سپورٹ بھی مل سکتی تھی۔ چند جلسوں میں چند ہزار لوگوں کے آ جانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ملک کا سارا نظام جلسے والی پارٹی کے حوالے کر دیا جائے۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عام طور پر ملک کی اندرونی سکیورٹی پر مستقل نظر رکھتی ہے جب انہیں لگا کہ حالات خطرناک رخ اختیار کرنے والے ہیں ''وہ‘‘ احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لا کر صورتحال کو سنبھال لیں گے۔
’پاکستانی عوام کی شکست‘
میاں سیف الرحمن کا اس بارے میں کہنا تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کی لڑائی میں کامیابی کا تو اندازہ نہیں البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس لڑائی میں پاکستان کے عوام ہار جائیں گے۔ اس کشیدگی اور عدم استحکام کی قیمت عام آدمی کو ہی ادا کرنا ہوگی۔
پاکستان کے ایک ممتاز تجزیہ نگار اور سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں مار کی پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔ ہر سیاسی جماعت کو آئین کے اندر رہتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ البتہ اگر کوئی قانون کو توڑے تو اس پر قانون کو اپنا راستہ ضرور بنانا چاہیے۔
سیالکوٹ واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہاں پی ٹی آئی نے ایک پرائیویٹ زمین پر بلا اجازت جلسہ کرنے کی غلطی کی تھی لیکن بعد ازاں احساس ہونے پر اس غلطی کی تصیح کر لی گئی۔ وہاں گرفتار کیے جانے والے کارکن بھی رہا کیے جا چکے ہیں۔
انتقام کی سیاست
مجیب شامی کہتے ہیں کہ انتقام کی سیاست نے ملک کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے حکومتوں کوصبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس جماعت کے لیڈروں کے خلاف جو بے بنیاد مقدمے بنائے گئے اس کی قیمت آج عمران خان کو چکانا پڑ رہی ہے۔ اس لیے ایسی روش سے باز رہنا ہی بہتر ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی تو پاکستان کی عدالتیں انہیں انصاف فراہم کریں گی لیکن اگر تصادم اور دھکم پیل کی پالیسی اپنائی گئی تو پھر قانونی کارروائی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ حکومت اور پی ٹی آئی کی لڑائی میں اسٹیبلشمنٹ کس کا ساتھ دے گی۔ مجیب شامی نے بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ اس لڑائی میں غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور امید یہی ہے کہ وہ اس لڑائی میں فریق نہیں بنے گی اور کسی پارٹی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے سے گریز کرے گی۔ ''ہماری خواہش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار رہنے کے اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہے ہم مستقبل میں اسے اس میزان پر تولیں گے۔ ‘‘
مجیب شامی کے بقول یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں ایک پارٹی اس بات پر سراپا احتجاج ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آئین کے مطابق غیر جانب دار کیوں ہے اور اس نے اس سیاسی پارٹی کا اقتدار بچانے میں اس کی مدد کیوں نہیں کی۔