پاکستان: شہباز حکومت کی اکثریت پر پی ٹی آئی کے سوالات
20 اپریل 2022پاکستان میں وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ نے کل ہی حلف لیا ہے لیکن اس حکومت کی اکثریت کے حوالے سے پی ٹی آئی نے سوال اٹھا دیا ہے، جو کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ حکومت صرف تین ووٹوں پر کھڑی ہے، انہوں نے دعوی کیا کہ اختر مینگل نے حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کی اور اگر اختر مینگل اعتماد کا ووٹ نہیں دیتے ہیں تو شہباز شریف کی حکومت کامیاب نہیں ہوگی۔
سابق وزیر اطلاعات و نشریات کا یہ بھی دعوی ہے کہ صدر مملکت آئینی طور پر کسی بھی وقت اس حکومت کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ تین سو بیالیس کے ایوان میں شہباز شریف کو ایک سو چوہترووٹ ملے تھے جب کہ انہیں ایک سو بہتر ووٹ درکار تھے۔ ایم کیو ایم کے ایک رکن قومی اسمبلی کے انتقال کی وجہ سے شہباز شریف کی یہ اکثریت اب صرف چند ووٹوں پر کھڑی ہے۔
حکومتی اتحادیوں میں اختلافات کی خبریں
صرف اختر مینگل ہی نہیں حکومت کے دوسرے اتحادیوں میں بھی اختلافات کی خبریں وفاقی دارالحکومت کے کئی حلقوں میں گھوم رہی ہیں۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمن نہیں چاہتے کہ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ اور عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی امیر حیدر خان ہوتی کو وزارتیں ملیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی، کچھ ناقدین کے خیال میں، مزید حکومتی عہدے چاہتی ہے جب کہ اس کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ پہلے بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر اتحادیوں کو وزارتیں دی جائیں۔ اس صورت حال میں کئی حلقوں میں نہ صرف حکومتی مضبوطی کے حوالے سے سوالات ہورہے ہیں بلکہ کئی ناقدین اور پی ٹی آئی اس کی اکثریت پر بھی سوالات اٹھارہے ہیں۔
پی ٹی آئی کا دعوی
واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے چاغی اور نوکنڈی کی کشیدہ صورت حال کا عذر پیش کرتے ہوئے حکومت میں شمولیت سے فی الحال معذرت کرلی ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ یہ حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی ایک رہنما اور رکن پنجاب اسمبلی مسرت چیمہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ہوا میں بات نہیں کررہی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ 'امپورٹڈ حکومت‘ اکثریت کھو چکی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ کوئی افسانہ نہیں حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت صرف دو تین ارکان پر تھی۔ اس میں سے ایک کی موت ہوگئی ہے جب کہ اختر مینگل کی حمایت بھی اب مشکوک ہوگئی ہے۔ تو یہ بات واضح ہے کہ یہ حکومت اعتماد کھوچکی ہے۔‘‘
کیا صدر مملکت اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں؟
فواد چوہدری کا دعوی ہے کہ صدر آئینی طور پر ایسا کر سکتے ہیں لیکن اس حوالے سے ارکان اسمبلی اور قانونی ماہرین کے رائے مختلف ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سوال کون اٹھائے گا کہ حکومت اکثریت کھو چکی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر وزیر اعظم ایوان کا اعتماد یا اکثریت کھو چکے ہیں، تو تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے لیکن پی ٹی آئی کے سو سے زائد ارکان استعفے دے چکے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تحریک لائے گا کون، کیونکہ ریکوزیشن کے لئے بھی ارکان کی ایک خاص تعداد ردکار ہوتی ہے، جو استعفوں کی وجہ سے نہیں ہے۔‘‘
پی پی پی کے رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صدر کے اختیارات بہت کم ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئین نے صدر کو وزیر اعظم کے مشورے کے تعابع کر دیا ہے اور میرے خیال میں صدر کو یہ آئینی اختیار نہیں کہ وہ خود وزیر اعظم سے یہ کہہ کہ وہ اعتماد کا ووٹ دوبارہ لیں۔ صدر ایسا صرف اس ہی صورت میں کہہ سکتے ہیں جب ایوان میں تحریک عدم اعتماد حزب اختلاف یا کسی اور کی طرف سے جمع کرائی گئی ہو۔‘‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی بھی فواد چوہدری کی اس دعوے سے اختلاف کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر پی ٹی آئی ایوان کے اندر ہوتی اور اسے شک ہوتا کہ حکومت اعتماد کھو چکی ہے تو وہ تحریک عدم اعتماد لا سکتے تھے۔ لیکن صدر کو ایسا کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں کہ وہ از خود وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔‘