پاکستان کی سکیورٹی صورتحال سے متعلق جرمن رکن پارلیمان ایلکے ہوف کا انٹرویو
23 ستمبر 2011ڈوئچے ویلے: آپ نے آخری بار کب پاکستان کا دورہ کیا تھا؟
ایلکے ہوف: میں نے وہاں کرسمس 2010ء سے نیا سال شروع ہونے تک وقت گزارا۔
ڈوئچے ویلے: تو پھر آپ کو ملک میں اسلامی عسکریت پسندی کے اضافے کا تاثر ملا ہو گا؟
ایلکے ہوف: میرا یہ پاکستان کا آٹھواں دورہ تھا۔ سکیورٹی پالیسی پر توجہ دینے والے سیاستدان کی حیثیت سے مجھے سکیورٹی معاملات میں گہری دلچسپی ہے۔ سن 2007ء میں لال مسجد کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد سے میں نے ملک کی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال میں کافی ابتری دیکھی ہے۔ میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب ان حملوں میں زیادہ تر پاکستانی عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آپ دیکھیں کہ اسلام آباد نے ایک قلعے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ صورتحال کافی خراب ہو چکی ہے۔
ڈوئچے ویلے: جب پاکستانیوں سے اس صورتحال پر بات کی جائے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلامی انتہاپسندی کے پھیلنے میں بیرونی عوامل کا ہاتھ ہے اور اس میں پاکستان کا قصور نہیں ہے۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس کی وجوہات میں افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ اور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکی ردعمل شامل ہیں۔ اور بلاشبہ وہ اس چیز کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ نے طالبان کو قائم کیا۔ گزشتہ دو دہائیوں پر نظر ڈالتے ہوئے آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟
ایلکے ہوف: بلاشبہ، آپ اس کی یوں وضاحت نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طالبان سرد جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوئے مگر دوسری جانب پاکستان کے ناقص نظام تعلیم کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں اسکولوں کی تعداد ناکافی ہے، کوئی قومی نصاب نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں دینی مدارس یا قرآنی تعلیمات سکھانے والے اسکول بڑی تعداد میں نمودار ہو گئے ہیں۔ اس سے نظریاتی تعلیم کا رجحان زور پکڑ رہا ہے اور لوگوں کی اچھی خاصی تعداد نیم خواندہ یا غیر خواندہ ہے۔ پاکستان اس صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے اور اس نے اسلامی بنیاد پرستی کو روکنے کے لیے بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔
ڈوئچے ویلے: اسلام آباد میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بگاڑنا نہیں چاہتا کیونکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد یا بھارت کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں پاکستان کو ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہ ایک تباہ کن صورتحال ہے۔ اس کے علاوہ یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ریاست کے اندر ایک ریاست بن چکی ہے اور سکیورٹی پالیسی وہی تشکیل دے رہی ہے۔ پاکستان میں بات چیت کے دوران آپ کو کیا تاثر ملا؟
ایلکے ہوف: اس ملک میں عسکری اور انٹیلیجنس سروسز کی پوزیشن کافی مضبوط ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سویلین حکومت کمزور ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اقوام عالم میں ایک نیا ملک ہے اور قوم سازی کے عمل پر سیاسی صورتحال اثر انداز ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں ماضی میں مغرب نے پاکستان کی صورتحال پر مناسب توجہ نہ دے کر غلطی کی۔ دوسری جانب مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ فوج نے اس ملک کو بکھرنے سے بچایا ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ فوج نے کافی سیاسی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نہ ایک روز فعال جمہوری ادارے قائم ہو جائیں گے۔ اس کے لیے ملک میں جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنا ہو گا اور یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جمہوریت سے مراد سب کی شمولیت ہے اور ملک کی پالیسیوں کا تعین کرنے کے لیے محض چند خاندانوں کی حمایت کافی نہیں۔ کسی مرحلے پر مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں اس کا نتیجہ تشدد کی اس لہر کی صورت میں نہیں نکلے گا جو ہم آج کل عرب دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔
انٹرویو: گراہم لوکاس
ترجمہ: حماد کیانی
ادارت: شادی خان سیف