پرویز مشرف کی واپسی، سن 2013 میں
14 مئی 2011جمعہ کے روز سابق صدر پرویز مشرف کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ آئندہ برس 23 مارچ کو لاہور ائیر پورٹ پر اتریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دو ہزار تیرہ میں ہونے والے الیکشن میں حصہ لیں گے۔
پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں جنرل مشرف کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں اور پاکستان آمد پر ممکنہ طور پر انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
دبئی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’میری گرفتاری کا خطرہ موجود ہے لیکن میں ملک کی خاطر یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہوں‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے کسی سے بھی کوئی ڈیل نہیں کر رہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سابق صدر جب اقتدار سے علیٰحدہ ہوئے تھے، تو پاکستانی عوام میں وہ انتہائی نامقبول تھے اور ابھی بھی پاکستان میں ان کے حمایتی افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی شک وشبعے کا اظہار کیا کہ پاکستانی فوج کے افسروں کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں علم تھا۔ انہوں نے بتایا، ’مجھے اس بات پر شک ہے کہ پاکستانی افسروں کو اسامہ کے ٹھکانے کا علم تھا۔ افسروں کو ہر تین سال بعد تبدیل کر دیا جاتا ہے۔‘
جنرل مشرف نے 1999ء میں فوجی بغاوت کرتے ہوئے حکومت سنبھالی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف برسر اقتدار تھے۔ اس فوجی بغاوت کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعدازاں چند عرب ملکوں کی مداخلت پر شریف برادارن اور ان کے اہلخانہ کو سعودی عرب جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
مختلف حلقوں کی طرف سے ملک میں ہونے والے خود کش حملوں کا ذمہ دار بھی مشرف کو قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں لال مسجد میں ہونے والے آپریشن کے بعد ملک بھر میں خودکش حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ سابق جنرل مشرف 2008ء میں شدید عوامی دباؤ کے بعد، صدارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے دبئی اور لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
رپورٹ : امتیاز احمد
ادارت : عاطف توقیر