پناہ کے متلاشیوں کے لیے جرمن حکومت کے مزید سخت فیصلے
10 فروری 20172015ء کے وسط سے لے کر اب تک جرمنی میں ایک ملین سے زیادہ مہاجرین اور تارکین وطن سیاسی پناہ حاصل کرنے پہنچے۔ جمعرات نو فروری کی شام وفاقی جرمن حکومت نے ایسے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ملک بھر سے ایسے تارکین وطن کو ملک بدر کیے جانے کی رفتار میں اضافہ کر دیا جائے گا جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں رد ہو چکی ہیں۔
پانچ جرمن صوبے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے سے گریزاں
جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل
جرمنی کی سولہ صوبائی حکومتوں اور وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مابین اس سلسلے میں اتفاق رائے طے پا گیا ہے جس کے بعد جرمنی سے مہاجرین کی جلد وطن واپسی یقینی بنانے کے لیے قانون سازی جلد ہی کر دی جائے گی۔ اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے انگیلا میرکل کا کہنا تھا، ’’ہم نے آج جو فیصلے کیے ہیں وہ اس لیے بھی ضروری ہیں تاکہ ہم مستقبل میں بھی ایسے لوگوں کو پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھ سکیں جنہیں حقیقی معنوں میں تحفظ فراہم کیے جانے کی ضرورت ہے۔‘‘
میرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن لوگوں کی جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں انہیں جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیجنے سے جرمنی کے لیے ’’یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ ایسے مہاجرین کو پناہ دے سکے جنہیں ہنگامی صورت حال کا سامنا ہے۔‘‘
جرمن حکومت نے پناہ گزینوں کو ملک بدر کیے جانے کا جو نیا منصوبہ بنایا ہے اس کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین بہتر تعاون کی غرض سے جرمنی بھر میں ’ملک بدری کے مراکز‘ قائم کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں ایسے تارکین وطن، جو رضاکارانہ طور پر جرمنی سے واپس اپنے وطنوں کو لوٹیں گے، کو مالی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔
وفاقی جرمن حکومت نے ایسے ممالک پر بھی دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جو اپنے ملک کے شہریوں کی واپسی میں تعاون نہیں کر رہے۔ برلن کی کرسمس مارکیٹ میں حملے کے بعد سے جرمنی نے خاص طور پر شمالی افریقی ممالک کے ساتھ تارکین وطن کی واپسی کے لیے کیے جانے والے مذاکرات میں تیزی لائی ہے۔
جمعرات کو طے پانے والے معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایسے پناہ گزینوں کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے جو جرائم میں ملوث ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے تارکین وطن کو بھی جلد ملک بدر کر دیا جائے گا جنہوں نے جرمن حکام کو اپنی اصل شناخت اور قومیت کے بارے میں غلط معلومات فراہم کر رکھی ہیں۔ تارکین وطن کی قومیت اور شناخت جاننے کے لیے اب جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (BAMF) کو مہاجرین کے موبائل فون ریکارڈ تک رسائی بھی حاصل ہو گی۔
جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے عوامی نشریاتی ادارے اے آر ڈی سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں بتایا کہ حالیہ برسوں کے دوران شام اور عراق جیسے خانہ جنگی کے شکار ممالک کے لاکھوں شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے لیکن ان ممالک کے علاوہ محفوظ سمجھے جانے والے ممالک کے شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دیں۔ ڈے میزیئر کا کہنا تھا کہ محفوظ ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیجے جانے کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ برس کے دوران دو لاکھ سے زائد افراد کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئی تھیں تاہم صرف 80 ہزار غیر ملکیوں کو ہی جرمنی سے ملک بدر کیا جا سکا تھا۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں