پوٹن کی پاکستان کو توانائی کی سپلائی میں اضافہ کرنے کی پیشکش
4 جولائی 2024گزشتہ برس جون میں پاکستان کو روسی خام تیل کی پہلی کھیپ موصول ہوئی تھی، لیکن اس کے بعد اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ روس کا کہنا ہے کہ اناج کی سپلائی بڑھا کر وہ پاکستان کے غذائی تحفظ میں مدد کر رہا ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے بدھ کے روز آستانہ میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی اور بات چیت کے دوران پاکستان کو خام تیل سمیت توانائی کی سپلائی میں اضافہ کرنے کی پیشکش کی۔
واضح رہے کہ پاکستان مغرب کے دباؤ کے باوجود اپنی خارجہ پالیسی کو متنوع بنانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر روس کے ساتھ بھی قریبی تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے۔
ملاقات کے دوران پوٹن نے کیا کہا؟
کریملن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ بدھ کے روز وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران روسی صدر پوٹن نے پاکستان کو توانائی کی مزید فراہمی کے امکان پر تبادلہ خیال کیا۔
بیان کے مطابق پوٹن نے شہباز شریف کو بتایا کہ ''میں خاص طور پر دو اہم شعبوں، توانائی اور زرعی صنعت کے شعبوں، میں تعاون پر زور دینا چاہوں گا: ہم نے پاکستان کو توانائی کے وسائل کی فراہمی شروع کر دی ہے اور ہم سپلائی میں مزید اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔''
کریملن کے مطابق صدر پوٹن نے شہباز شریف سے کہا کہ وہ ان سے مل کر ''بہت خوش'' ہیں۔ روسی صدر نے مزید کہا کہ ''آپ کی درخواست کے مطابق روس پاکستانی منڈی میں اناج کی سپلائی بڑھا کر پاکستان کی غذائی تحفظ میں مدد کے لیے سرگرم عمل ہے۔''
پوٹن اور شہباز علاقائی سربراہی اجلاس کے لیے قازقستان میں ہیں اور یہ ان کی دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل ستمبر 2022 میں سمرقند میں ہونے والے ایس سی او اجلاس کے دوران بھی دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تھی۔
روسی صدر کے دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پوٹن نے کہا، ''میں یہ نوٹ کرنا چاہوں گا کہ اس وقت سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کاروبار کی طرح دوستانہ جذبے سے ترقی کرتے رہے ہیں۔ ہم تجارت میں ترقی دیکھ سکتے ہیں اور اس شعبے میں امکانات بہت اچھے نظر آ رہے ہیں۔''
شہباز شریف نے کیا کہا؟
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا، ''ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ کئی دہائیوں کے دوران ہمارے دوستانہ تعلقات پروان چڑھے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہماری آج کی ملاقات روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔''
شہباز شریف نے کہا کہ ''آپ سے ملنا واقعی ایک بڑے اعزاز اور خوشی کی بات ہے اور سمرقند میں ایس سی او اجلاس کے موقع پر ملاقات کے بعد مجھے آپ سے دوبارہ مل کر بہت خوشی ہوئی۔''
وزیر اعظم نے پوٹن کے دوبارہ صدر منتخب ہونے پر بھی مبارکباد پیش کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ روسی فیڈریشن ان کی ''قابل قیادت'' میں مزید ترقی کرے گی۔
شہباز شریف نے روسی صدر کو بتایا کہ گزشتہ کئی برسوں سے دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''یہ ہمارے لیے بڑے اطمینان کی بات ہے اور میں اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہوں گا۔ ہمارے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے اور ہم آپ کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔''
انہوں نے کہا، ''ہم یقینی طور پر اپنی تجارت کو بڑھا سکتے ہیں، جو فی الوقت ایک بلین امریکی ڈالر کے قریب ہے۔ اور یقیناً، میری درخواست پر، آپ نے توانائی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے مہربانی سے کام لیا اور ہمیں آپ کے عظیم ملک سے تیل کی کھیپ موصول ہوئی۔ میں اس کے لیے بہت مشکور ہوں۔ ہمیں واقعی اس سمت میں مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔''
شہباز شریف نے روسی صدر کو بتایا کہ ''ہمارے تعلقات ہماری اپنی طاقت پر کھڑے ہیں۔ ہمارے تعلقات کسی جغرافیائی اور سیاسی ہنگامی صورتحال سے متاثرنہیں ہیں اور نہ ہی اس سے دوسرے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔''
پاکستان کے لیے روسی تیل
پاکستان اور روس کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت گزشتہ برس جون میں پاکستان کو روسی خام تیل کی پہلی کھیپ موصول ہوئی تھی۔ پہلی کھیپ میں 45 ہزار میٹرک ٹن خام تیل لے کر کارگو جنوبی شہر کراچی پہنچا تھا اور پھر اس کے دوسرے ہفتے میں مزید 50,000 میٹرک ٹن کی دوسری کھیپ بھی کراچی بندر گاہ پہنچی تھی۔
مسلسل سپلائی سے قبل روسی تیل کی پہلی کھیپ کا اصل مقصد پاکستان میں خام تیل کی پروسیسنگ اور رسد کی دیگر لاگتوں اور تمام خرچوں کا جائزہ لینا تھا، تاکہ اس حوالے سے تمام مسائل پر غور ہو سکے۔ البتہ بعض ماہرین اس بات پر خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ یہ کہنا جلد بازی ہو گی کہ آیا روس کے ساتھ تیل کے اس معاہدے سے گھریلو صارفین کو کوئی خاص فائدہ پہنچے گا۔
پاکستان روس کے سستے یا رعایتی داموں پر مبنی تیل کی سپلائی سے فائدہ اٹھانا تو چاہتا ہے۔ لیکن گزشتہ برس کی پہلی کھیپ کے بعد سے اس سمت میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)