چونتیس ممالک میں کروڑوں انسان قحط کے دہانے پر، گوٹیرش
25 جون 2022گوٹیرش کے مطابق یوکرین پر روسی فوجی حملے نے دنیا میں پہلے سے موجود مسائل کو مزید مشکل اور شدید تر بنا دیا ہے۔ عالمی سطح پر غذائی قلت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس پس منظر میں اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے جمعہ 24 جون کے روز تنبیہ کی کہ اس وقت دنیا غذائی تحفظ کی ’تباہی‘ کا سامنا کر رہی ہے۔
عالمی ادارے کے سربراہ نے یہ بات اپنے ایک ویڈیو پیغام میں دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک کے سرکردہ قانون سازوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا میں ہونے والے جی سیون کے اگلے سربراہی اجلاس سے قبل یہ اجلاس برلن میں جاری تھا اور اس کے شرکاء غذائی تحفظ سے متعلق ایک کانفرنس کے لیے جمع ہوئے تھے۔
اس موقع پر انٹونیو گوٹیرش نے کہا، ’’اس بات کا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ 2022ء میں کئی خطوں اور ممالک میں قحط کا اعلان کر دیا جائے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’سن 2023ء تو رواں سال سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا کے تقریباً 34 ممالک میں کروڑوں انسان قحط اور بھوک کے دہانے پر ہیں۔
انٹونیو گوٹیرش کے مطابق اقوام متحدہ کا ادارہ اس منصوبے پر کام کر رہا ہے کہ یوکرین کو اناج کے اپنے بڑے ذخائر عالمی منڈی کو برآمد کرنے کی اجازت دی جائے، بشمول بحیرہ اسود کی بندر گاہوں والے ان راستوں کے، جن کی اب تک روسی بحری جہازوں نے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
غذائی عدم تحفظ سے پوری دنیا متاثر ہو گی
اقوام متحدہ کے سربراہ نے خبردار کیا کہ کھاد اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے کسان بری طرح متاثر ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال کے طویل المدتی اثرات کرہ ارض کے تقریبا سبھی حصوں پر پڑیں گے۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا، ’’اس سال کے خوراک تک رسائی کے مسائل اگلے سال عالمی سطح پر خوراک کی قلت کا مسئلہ بن سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں کوئی بھی ملک اس تباہی کے سماجی اور معاشی اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا۔‘‘
انہوں نے یوکرین کی زرعی مصنوعات کو عالمی منڈی تک پہنچانے پر زور دیا تاکہ ایک طرف اگر یوں اناج کی قلت کم کی جا سکے گی، تو دوسری طرف غریب ممالک کو ان کے ذمے قرضوں سے بھی کچھ نجات مل سکے گی۔ واضح رہے کہ عالمی سطح پر گندم کی برآمدات کا 29 فیصد حصہ صرف روس اور یوکرین سے آتا ہے۔
گوٹیرش کے مطابق یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے پہلے سے موجود مسائل اب شدید تر ہو چکے ہیں اور اس لیے ’’اب ہمیں بھوک کے ایک بے مثال عالمی بحران کا سامنا بھی ہے۔‘‘
عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل کے الفاظ میں، ’’یوکرین میں جنگ نے ان مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، جو کئی برسوں سے کورونا وائرس کی وبا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پہلے ہی سر اٹھا چکے تھے اور حل نہیں ہوئے تھے۔‘‘
جرمن وزير خارجہ کی طرف سے مغربی پابندیوں کا دفاع
برلن میں اس اجلاس کی میزبانی کرنے والی جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے ماسکو کے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ روس کے خلاف مغربی ممالک کی عائد کردہ پابندیاں ہی غذائی تحفظ کے بحران کی ذمہ دار ہیں۔ روس کا دعویٰ ہے کہ مغربی ممالک نے اس پر جو پابندیاں لگائی ہیں، انہی کے باعث دنیا کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس کے برعکس جرمن وزیر خارجہ نے اس غیر منطقی روسی موقف کو ’مکمل طور پر ناقابل برداشت‘ قرار دیا اور کہا کہ رواں برس مئی اور جون میں گندم کی روسی برآمدات گزشتہ برس کی سطح پر ہی تھیں۔
انالینا بیئربوک نے خوراک کے بحران کی بہت سی دیگر وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے موقف کی حمایت بھی کی۔ تاہم ساتھ ہی ان کا کہنا تھا، ’’یہ یوکرین کے خلاف روسی جنگ کی وجہ سے ہی ہوا کہ غذائی عدم تحفظ کی لہر ایک سونامی میں بدل گئی۔‘‘
ص ز / م م (اے پی، روئٹرز)