چین اور بھارت، دونوں حریف ڈربن میں ساتھ ساتھ
12 دسمبر 2011ناقدین کا خیال ہے کہ ڈربن میں سامنے آنے والے عالمی معاہدے کے مسودے کی مثبت بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے بڑے ممالک پر دباؤ پڑا ہے کہ وہ اقدامات کریں تاہم یہ معاہدہ اتنا جامع اور جارحانہ نہیں، جس سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ پر قابو پایا جا سکے۔
ڈربن میں سامنے آنے والے اس مبہم عالمی معاہدے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں میں کمی کے لیے موجودہ معاہدے کیوٹو پروٹوکول، جس کی مدت اگلے برس پوری ہو جانا تھی، جاری رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے بھارت اور چین کی جانب سے سب سے زیادہ مخالفت کی گئی۔ ان ممالک نے ترقی یافتہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کر رکھا تھا کہ وہ ایسے کسی عالمی معاہدے کا حصہ نہیں بنیں گے، جس سے ان کی اقتصادی ترقی کی رفتار پر حرف آئے۔
بھارتی وزیر ماحولیات جیانتھی نتاراجن نے اپنی تقریر میں زور دے کر کہا کہ نئی دہلی پر اس حوالے سے دباؤ ڈالنا ناانصافی کے برابر ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک اس معاہدے کو ’بے دلی‘ سے قبول کر رہا ہے۔
’’ہم نے بہت سخت ماحول میں گفتگو کی۔ ہم مسودے کے دوبارہ لکھنے کے خلاف تھے۔ مگر جس طرح تمام ممالک کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا، تو بھارت نے بھی لچک کا مظاہرہ کیا۔‘‘
ڈربن کانفرنس میں چینی مؤقف بھی بھارت سے مختلف نہیں تھا۔ چین امریکہ پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ کیوٹو پروٹوکول میں شامل نہیں ہوا تھا۔ اس کانفرنس میں یورپی یونین غریب ممالک اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جزیروں کے ساتھ کھڑی تھی۔
واضح رہے کہ امریکہ نے اس سے قبل کیوٹو پروٹوکول پر دستخط نہیں کیے تھے، تاہم اس بار دنیا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے حوالے سے سرفہرست ملک چین کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی دستخط کرنا پڑے۔
مبصرین کے مطابق گو کہ یہ معاہدہ اتنا بھرپور اور موثر ہر گز نہیں، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار میں نمایاں کمی کا باعث بن سکے، تاہم امریکہ سمیت تمام ممالک کا اس مبہم مگر متفقہ لائحہ عمل کی طرف قدم بڑھا دینا کسی نہ کسی طور اس بات کا پتہ ضرور دیتا ہےکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: حماد کیانی