ڈربن کانفرنس کامیاب، لیکن مبہم فیصلے
12 دسمبر 2011عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں موجود 194ممالک کے مندوبین کے مابین غیر متوقع طور پر مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح چھ بجے ایک پیکج پر اتفاق رائے ہو ہی گیا۔ آخری وقت تک خدشہ تھا کہ 14روز تک جاری رہنے والی یہ کانفرنس ناکام ہو جائے گی۔ طویل مذاکرات کے بعد اقوام متحدہ کے تحفظ ماحول کی سربراہ کرسٹیانا فیگیرس نے اتوار 11دسمبر کی صبح بالآخر یہ اعلان کیا کہ جنوبی افریقہ میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس ڈربن پیکج کی منظوری کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی ہے۔
یہ اتفاق رائے اس وجہ سے تو نہیں ہوا کہ تیس گھنٹے کی اضافی بحث کے بعد مندوبین مزید بات چیت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یا یہ کہ یہ اتفاق رائے جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ اور کانفرنس کی سربراہ مائیٹے نکوآنا ماشابانے کی بار بار کی اپیلوں کا نتیجہ تھا۔ وہ کہتی ہیں’’میرے خیال میں ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ یہ نتائج مثالی نہیں ہیں۔ تاہم ہمیں مثالی نتائج کی تلاش میں ممکنات اور امکانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
ڈربن پیکج کو ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور زمینی درجہء حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے حوالے سے جاری تحفظ ماحول کی عالمی سیاست کی ابتدا بھی کہا جا رہا ہے۔ اس پیکج کے مطابق2017 ء اور 2020 ء کے درمیانی عرصے میں ایک عالمی ماحولیاتی معاہدہ تیار کر لیا جائے گا، جس پر صرف امیر صنعتی ممالک ہی نہیں بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ملک بھی عمل درآمد کرنے کے پابند ہوں گے۔
دوسری جانب یورپی یونین نے ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کے اب تک کے واحد معاہدے کیوٹو پروٹوکول کی مدت میں اضافے کی تائید کی ہے۔ آیا کیوٹو پروٹوکول کی مدت میں پانچ یا آٹھ سال تک کا اضافہ کیا جائے گا، یہ فیصلہ اگلے برس ہو گا۔ اس طرح ایک طرف تو تحفظ ماحول کے حوالے سے ایک روڈ میپ تیار کر لیا گیا تو دوسری جانب کیوٹو پروٹوکول کو بھی بچا لیا گیا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اتنے طویل مذاکرات کے بعد سامنے آنے والا نتیجہ توقعات کے مطابق نہیں ہے۔
ماہر ماحولیات مارٹن کائزر کہتے ہیں کہ نتائج غیر واضح ہونے کے باوجود حوصلہ افزاء ہیں۔ ان کے بقول یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ چین اور بھارت کے علاوہ برازیل اور جنوبی افریقہ نے بھی کہا ہے کہ اگر تحفظ ماحول کا کوئی عالمی معاہدہ طے پاتا ہے تو وہ بھی اس پر عمل پیرا ہوں گے۔ لیکن خطرہ امریکہ کی جانب سے ہے۔ وہ آخری وقت میں پھر مخالفت کر سکتا ہے۔
ڈربن کانفرنس کو کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ تاہم ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کی وضاحت لازمی ہے اور ان موضوعات کو اگلے سال تک کے لیے ٹال دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈربن پیکج کو ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر تحفظ ماحول کے موضوع کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو اگلے بیس سالوں میں زمینی درجہء حرارت میں چار ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: ہیلے ژیپیسن/ عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک