چین کے حالیہ اقدامات پر بھارت کا سخت رد عمل
7 جنوری 2022بھارت نے جمعرات کی شام کو چین کے بعض حالیہ اقدامات پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چینی اقدامات مضحکہ خیز ہیں اور اس نے بھارتی ارکان پارلیمان کے نام جو خط لکھا ہے، اس کا لہجہ اور طریقہ کار بھی غیر مناسب ہے۔ اس نے لداخ میں پینگانگ جھیل پر نئے چینی پل کی تعمیر کو بھی ناجائز بتایا۔
گزشتہ ہفتے میڈیا میں چین کی جانب سے بھارت کے خلاف تین اہم اقدامات کی اطلاعات تھیں جس پر نئی دہلی کی وزارت خارجہ نے کئی روز بعد جمعرات دیر شام کو اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ چین کو یہ رویہ اپنانے کے بجائے سرحدی معاملات کے حل کے لیے تعمیری مذاکرات میں شرکت کرنے کی ضرورت ہے۔
دہلی میں جلاوطن تبتی پارلیمان کا اجلاس
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی نے کہا کہ چینی سفارت خانے نے بھارتی ارکان پارلیمان کے نام جو خط لکھا تھا اسے انہوں نے دیکھا ہے تاہم، "اس خط کا مواد، لہجہ اور طریقہ کار غیر مناسب ہے۔ چین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت ایک فعال جمہوریت ہے اور عوام کے نمائندے کے طور پر معزز اراکین پارلیمنٹ اپنے خیالات اور نظریات کے مطابق سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "چین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اراکین پارلیمنٹ کی معمول کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے سے گریز کرے گا اور ہمارے دو طرفہ تعلقات کی صورتحال کو مزید پیچیدہ نہیں بنائے گا۔"
خیال رہے کہ 22 دسمبر کو جلاوطن تبتی پارلیمنانی اراکین کی طرف سے نئی دہلی میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا گيا تھا، جس میں بھارت کے متعدد ارکان پارلیمان نے بھی شرکت کی تھی۔ دہلی میں چینی سفارت خانے نے اس پر گہری "تشویش" کا اظہار کرتے ہوئے ایک خط تحریر کیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ وہ، "تبت کی آزادی کے لیے سرگرم قوتوں کو مدد فراہم کرنے سے گریز کریں۔"
اروناچل پر چینی دعوی
میڈیا بریفنگ کے دوران ان سے جب اروناچل پردیش میں متعدد مقامات کے نام تبدیل کرنے سے متعلق سوال کیا گيا، تو بھارتی ترجمان ارندم بگچی نے کہا، "ہم نے ناقابل عمل علاقائی دعووں کی حمایت میں بعض مضحکہ خیز اقدام دیکھے ہیں، تاہم ان سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو تی کہ اروناچل پردیش ہمیشہ سے بھارت کا حصہ رہا ہے اور رہے گا۔"
حال ہی میں چین نے اپنے نقشے میں بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے 15 مقامات کا نام تبدیل کر کے نئے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ چین کا دعوی ہے کا اروناچل پردیش اس کے علاقے تبت کا ہی ایک حصہ ہے اور وہ اس ریاست پر بھارتی قبضے کو غیر قانونی بتاتا ہے۔ تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ ارونا چل اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔
بھارتی ترجمان کا کہنا تھا، "ہم امید کرتے ہیں کہ اس طرح کی حرکات میں ملوث ہونے کے بجائے، ایل اے سی پر جو باقی متنازعہ علاقے ہیں ان کو حل کرنے کے لیے چین ہمارے ساتھ تعمیری طور پر کام کرے گا۔"
پینگانگ جھیل پر پل کی تعمیر
لداخ کی معروف جھیل پینگانگ پر چین جو نیا پل تعمیر کر رہا ہے، بھارت نے اس پر بھی سخت اعتراض کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ارندم بگچی نے کہا، "یہ پل ان علاقوں میں تعمیر کیا جا رہا ہے جو تقریباً 60 برسوں سے چین کے غیر قانونی قبضے میں ہیں۔ جیسا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں، بھارت نے کبھی بھی اس طرح کے غیر قانونی قبضے کو قبول نہیں کیا۔"
مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو جاری رکھتے ہوئے، چین معروف جھیل پینگانگ پر ایک نیا پل تعمیر کر رہا ہے۔ یہ پل لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب ہی واقع ہے اور گزشتہ چند ماہ سے زیر تعمیر ہے۔ تاہم بھارت نے اس خبر پر پہلی بار باقاعدہ کوئی رد عمل ظاہر کیا ہے۔
عسکری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پل جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کے درمیان فوجیوں کو تیزی سے تعینات کرنے کے لیے ایک اضافی محور کے طور پر کام کرے گا۔ بھارت کے بیشتر میڈیا اداروں نے یہ خبر جلی حرفوں میں شائع کی ہے تاہم بھارتی حکومت نے ابھی تک اس خبر پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
اس پل کی تعمیر سے چین کی فوج کو آسانی سے جھیل کے دونوں کناروں تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ پینگانگ سو جھیل، 135 کلومیٹر لمبی ہے، جس میں سے دو تہائی سے زیادہ چین کے کنٹرول میں ہے۔ چین جھیل میں خرناک قلعے کے پاس ہی نیا پل بنا رہا ہے۔ یہ علاقہ کبھی بھارت کے پاس ہوا کرتا تھا۔
مئی 2020 میں چین اور بھارت کے درمیان ایل اے سی پر اسی جھیل سے فوجی کشیدگی کا آغاز ہوا تھا۔ حالات اتنے کشیدہ ہو گئے تھے کہ پندرہ جون کی رات کو وادی گلوان میں دونوں افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس میں بھارت کے بیس فوجی ہلاک ہو گئے اور چین کے بھی چند فوجی مارے گئے تھے۔