'چین کے لیے شمالی کوریا کی اہمیت میں کمی' وکی لیکس
30 نومبر 2010خفیہ دستاویزات جاری کرنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والی معروف ویب سائٹ کی طرف سے جاری کردہ دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چین نے شمالی کوریا کی طرف سے میزائل پارٹس کی دیگر ممالک کو فروخت کے معاملے پر دانستہ آنکھیں بند کیے رکھیں۔ مزید یہ کہ گُوگل اور امریکہ میں دیگر ٹارگٹس پر سائبر حملوں کے پیچھے چین کے اعلیٰ حکام کا ہاتھ تھا۔
جاری کیے جانے والے ایک سفارتی پیغام کے مطابق گزشتہ برس ایک ڈنر کے دوران قزاقستان میں تعینات ایک چینی سفارت کار نے انکشاف کیا کہ بیجنگ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو مسائل کی ایک بڑی وجہ سمجھتا ہے۔ برطانوی اخبار گارجیئن کے مطابق امریکی سفارت کار رچرڈ ہوگلینڈ کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغام کے مطابق ژینگ گووپنگ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ چین دونوں کوریاؤں کے پرامن اتحاد کے حوالے سے پرامید تو ہے تاہم فوری طور پر اس کی خواہش ہے کہ دونوں ریاستیں بدستور علیحدہ ہی رہیں۔
نیویارک ٹائمز نے ایک اور سفارتی پیغام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک چینی اہلکار کے بقول، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، بیجنگ حکومت سمجھتی ہے کہ سال 2009ء میں اپنے دوسرے ایٹمی تجربے کے بعد شمالی کوریا اپنی حد سے آگے بڑھ گیا ہے۔ اس اہلکار نے امریکی سفارت کار کو بتایا، " چینی حکام نے اس معاملے پر شمالی کوریا کے سامنے ناپسندیدگی کا بھی اظہار کیا تھا اور شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا تھا۔" تاہم چینی اہلکار کے بقول بدقسمتی سے اس احتجاج اور ناپسندیدگی کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے۔
مذکورہ پیغام کے مطابق چینی اہلکار نے یہ اعتراف بھی کیا کہ شمالی کوریا کے ساتھ اگر کوئی ملک معاملات طے کرسکتا ہے تو وہ صرف امریکہ ہے۔
شمالی کوریا کی جانب سے جنوبی کوریا پر شیلنگ کے واقعے کے بعد چین پر شدید دباؤ ہے کہ وہ علاقے میں موجود کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اپنے اہم حلیف شمالی کوریا پر دباؤ ڈالے، تاہم ابھی تک چین نے شمالی کوریا کے اس فعل کی کھل کر مذمت نہیں کی۔
سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات سے یہ بات بھی آشکار ہوئی ہے کہ عالمی برادری کے اندازوں کے برعکس چین شمالی کوریا پر بہت ہی کم اثر ورسوخ رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ چین کے لیے اس کمیونسٹ ریاست کی اہمیت میں اب کمی واقع ہوچکی ہے۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: عابد حسین