1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بدلہ ضرور لیں گے: جنوبی کوریا

27 نومبر 2010

جنوبی کوریا کے میرین کمانڈر نے عہد کیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے جارحانہ عمل کا بدلہ لیں گے۔ شمالی کوریائی افواج کی طرف سے عسکری کارروائی کے نتیجے میں اسی ہفتے جنوبی کوریا کے دو فوجی جبکہ اتنے ہی شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/QJyX
جنوبی کوریا کے ان دو فوجیوں کو اعلیٰ اعزاز کے ساتھ دفنا دیا گیا، جو شمالی کوریا کی عسکری کارروائی میں ہلاک ہوئے تھےتصویر: AP

جنوبی کوریا کے صدر Lee Myung-bak نے اپنے وزراء اور دیگر ساتھیوں کو خبردار کیا ہے کہ شمالی کوریا مستقبل میں اشتعال انگیزی کے مزید اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد اس طرح کا خطرہ کافی زیادہ ہے۔ جنوبی کوریا اور امریکہ اتوار سے مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز کررہے ہیں۔

صدرLee Myung-bak نے کہا،’ اس بات کا امکان ہے کہ شمالی کوریا مزید غیر متوقع ایکشن لے، اس لئے ہمیں بھر پور طریقے سے تیار رہنا چاہئے۔‘

NO FLASH nordkoreanischen Beschuss der südkoreanischen Insel Yonpyong
منگل کو شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین ہونے والی گولہ باری سن 1953ء کی جنگ کے بعد سے اب تک کی شدید ترین جھڑپ ہےتصویر: AP

پیونگ گیانگ حکومت پہلے ہی خبردار کر چکی ہے کہ جنوبی کوریا اور امریکہ کی مشترکہ عسکری مشقیں جزیزہ نما کوریا کو جنگ کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ان مشقوں سے قبل ہی ییونگ گیانگ حکومت نے کہا ہے کہ جنوبی کوریائی افواج کی طرف سے کسی بھی فوجی ایکشن کی صورت میں بھرپور جواب دیا جائے گا۔

دریں اثناء ان دو فوجیوں کو ایک پروقارتقریب میں دفنا دیا گیا ہے، جو منگل کو شمالی کوریائی عسکری کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس تقریب میں وزیر اعظم سمیت کئی دیگراعلی حکومتی شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پرجنوبی کوریائی میرین افواج کے سربرہ لیفٹیننٹ جنرل Yoo Nak Joon نے کہا کہ ان کی افواج شمالی کوریا کے اس جارحانہ ایکشن کا بدلہ ضرور لے گی۔

جنوبی کوریا نے بحیرہ زرد کی متنازعہ سمندری حدود میں واقع جزیرے یون پیونگ میں اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ سیئول حکام کے مطابق اگر شمالی کوریا نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو زبردست جوابی کارروائی کی جائے گی۔

منگل کو شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین ہونے والی گولہ باری سن 1953ء کی جنگ کے بعد سے اب تک کی شدید ترین جھڑپ تصور کی جا رہی ہے۔ خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے بعد واشنگٹن حکومت نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ اس صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے۔

Südkorea Insel Yeonpyeong Konflikt mit Nordkorea Flash-Galerie
جنوبی کوریا کے صدر Lee Myung-bak اپنے وزراء کے ساتھ ایک ملاقات کے دورانتصویر: AP

روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جزیرہ نما کوریا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے روسی وزیر خارجہ نے اپنے چینی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ بیجنگ حکومت نے کہا ہے کہ جزیزہ نما کوریا کی صورتحال کو معمول پر لانا ان کی اولین ترجیح ہے، جس کے لئے وہ واشنگٹن، سیئول اور پیونگ گیانگ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں