چیک جمہوریہ کے صدر غیر قانونی تارکین وطن پر برہم
2 اگست 2015پراگ سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسی تناظر میں بہت سے غیر قانونی تارکین وطن احتجاجی مظاہرے اور بلوے پر بھی اتر آئے تھے، جن پر قابو پانے کے لیے پولیس کو ان کے خلاف آنسو گیس بھی استعمال کرنا پڑی۔
اس پس منظر میں چیک صدر میلوس زیمان نے کثیر الاشاعت چیک روزنامے Blesk میں آج اتوار دو اگست کے روز شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں ایسے غیر قانونی تارکین وطن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’کسی نے آپ کو یہاں مدعو نہیں کیا تھا۔ لیکن اب جب کہ آپ یہاں موجود ہیں، آپ کو لازمی طور پر ہمارے قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔ اسی طرح جیسے ہم آپ کے ملک میں جائیں، تو وہاں کے قوانین کا احترام کرتے ہیں۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق میلوس زیمان نے روزنامہ ’بلَیسک‘ کے ساتھ اس انٹرویو میں غیر قانونی تارکین وطن سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا، ’’اگر آپ کو یہاں رہنا پسند نہیں ہے تو آپ یہاں سے چلے جائیں۔‘‘
اس پورے معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ چیک جمہوریہ کے شمال مشرق میں واقع ایک حراستی مرکز سے گزشتہ جمعے کے روز سو کے قریب ایسے غیر قانونی تارکین وطن نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی، جو اپنی ملک بدری کا انتظار کر رہے تھے۔ ان غیر ملکیوں میں زیادہ تر افغانستان، عراق اور پاکستان کے شہری شامل تھے۔
حکام کے مطابق جب ان غیر ملکیوں نے اس حراستی مرکز سے فرار ہونے کی کوشش کی تو پولیس کو انہیں قابو کرنے کے لیے آنسو گیس بھی استعمال کرنا پڑی، جس دوران ان میں سے کچھ نے اس مرکز میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
اس بارے میں چیک وزیر داخلہ میلان چووانَیچ نے کہا کہ فرار کی کوشش کرنے والے زیر حراست تارکین وطن ممکنہ طور پر جرمنی پہنچنے کے خواہش مند تھے۔ ایسے تارکین وطن کے بارے میں سوشل ڈیموکریٹ صدر میلوس زیمان نے، جو صدر بننے سے پہلے ملکی وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں، اپنے انٹرویو میں کہا، ’’ہم ایسے افراد کی ان کے اپنے ملکوں میں زیادہ بہتر مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے عراق، شام اور افغانستان جیسے ملکوں کا نام لیے بغیر حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ہمیں دہشت گرد گروپوں، خاص طور پر اسلامک اسٹیٹ جیسی تنظیموں کے خلاف ان کی ناکامی کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ان بڑی وجوہات کا ہی خاتمہ کر دیا جائے، جو ایسے انسانوں کی طرف سے ترک وطن کا سبب بنتی ہیں۔‘‘
یورپی یونین کے رکن اس ملک میں جمعہ اکتیس جولائی کے روز شائع ہونے والے ایک معتبر ادارے کے سروے کے نتائج کے مطابق چیک جمہوریہ کے 70 فیصد سے زائد باشندے اس بارے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کے وطن میں افریقہ اور مشرق وسطٰی سے آنے والے تارکین وطن کو خوش آمدید کہا جانا چاہیے۔
چیک ریپبلک 2004ء سے یورپی یونین کا رکن ملک ہے اور اس نے یورپی سطح پر وعدہ کر رکھا ہے کہ 2017ء تک وہ اپنے ہاں ڈیڑھ ہزار غیر ملکی مہاجرین اور تارکین وطن کو قبول کرے گا۔
چیک پولیس کے مطابق سال رواں کے پہلے چھ ماہ کے دوران اس نے کُل تین ہزار اٹھارہ غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا تھا اور یہ تعداد گزشتہ برس کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھی۔