ڈرون حملوں کے خلاف ’عدالتی کارروائی’
30 نومبر 2010کریم خان نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ ایسے ہی ایک ڈرون حملے میں ان کا بیٹا، بھائی اور ایک مقامی شخص ہلاک ہوئے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی دہشت گرد نہیں تھا۔ انہوں نے کہا، ’ ہم بے گناہ لوگ ہیں، ہمیں انصاف چاہئے۔‘
واضح رہے کہ اسی دوران پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع نے شمالی وزیرستان میں تین مبینہ شدت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔ یہ تازہ ڈرون حملہ میرعلی کے علاقے میں کیا گیا۔
کریم خان کے وکیل مرزا شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے خلاف پاکستان میں مقدمہ درج کیا جائے گا اور اگر ضروری ہوا تو دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی مقدمہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’یہ سیاسی معاملہ نہیں، انفرادی شکایت ہے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس، سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا اور اسلام آباد میں سی آئی کے سٹیشن چیف کو لیگل نوٹس بھیج دئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’ان سے پاکستان میں ڈرون حملے بند کرنے کے لئے کہا گیا ہے، ساتھ ہی اپنے مؤکل کو پانچ سو ملین ڈالر ہرجانہ دینے کا بھی کہا ہے، اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ہم اسلام آباد میں مقدمہ درج کردیں گے۔‘
امریکی عہدیداروں کے نام بھیجے گئے نوٹس میں ڈرون حملوں کو غیر قانونی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
امریکی سفارتخانے نے فی الحال ایسے کسی نوٹس کی وصولی کی تصدیق نہیں کی۔ قانونی امور کے مقامی ماہرین بھی اس بات کے امکانات بہت کم بتارہے ہیں کہ امریکی اعلیٰ عہدیددار پاکستانی عدالت میں پیش ہوں گے۔
محتاط اندازوں کے مطابق اگست 2008ء سے ڈرون حملوں میں 1270 افراد مارے جاچکے ہیں۔ پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف شدید عوامی اشتعال پایا جاتا ہے۔ ان حملوں میں مارے جانے والوں میں سے بیشتر کی شناخت آزاد ذرائع سے نہیں ہوپاتی۔ یہ نیم خود مختار علاقہ انٹیلی جنس بلیک ہول کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں صحافیوں اور غیر ملکی رضا کاروں کی رسائی انتہائی محدود ہے۔
اسلام آباد حکومت عوامی سطح پر ان حملوں کی مذمت کرتی ہے۔ امریکی حکومت عوامی سطح پر ڈرون حملوں کی تصدیق نہیں کرتی البتہ یہ واضح ہے کہ اس خطے میں ڈرون حملوں کی صلاحیت امریکی افواج اور ان کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے پاس ہی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل