ڈنمارک: غیر ملکیوں کو سماجی سہولیات کی فراہمی کام سے مشروط
9 ستمبر 2021یہ تجویز ڈنمارک میں برسراقتدار سوشل ڈیموکریٹک جماعت کی جانب سے پیش کی گئی ہے۔ اس تجویز میں کہا گیا، ’’اب بھی بہت سے افراد کو، خاص طور پر جن کا تعلق مغربی یورپ سے نہیں ہے، صبح اٹھ کر کام پر نہیں جانا ہوتا۔‘‘
حکومتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاص طور پر پاکستان، افغانستان، ترکی، شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر خواتین اب بھی ڈنمارک میں کام نہیں کرتیں۔
اس حوالے سے مسودے میں لکھا گیا، ’’اگر آپ ڈنمارک آتے ہیں تو آپ کو اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کام بھی کرنا پڑے گا۔ اگر کوئی اپنی ضروریات پوری نہیں کر پاتا تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ عمومی ہفتے کے دوران آپ دوسروں جتنا کام کریں تب ہی سماجی ویلفیئر کی مکمل سہولیات فراہم کی جائیں گی۔‘‘
ڈنمارک حکومت کا یہ منصوبہ ایسے افراد کے لیے ہے، جو ڈینش زبان پر ایک خاص حد تک عبور رکھتے ہیں اور ایسے افراد کو پیشہ ورانہ تربیت بلدیاتی انتظامیہ فراہم کرے گی۔
حکومتی جماعت کی اس تجویز پر 179 رکنی پارلیمان میں ووٹنگ کی جائے گی لیکن ابھی اس کی تاریخ طے نہیں کی گئی۔
پارلیمان میں اگرچہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے لیکن مسودے کے مندرجات کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی اس کی حمایت کریں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے منصوبے کی مخالفت
بائیں بازو کے نظریات کی حامل اپوزیشن جماعتیں تاہم اس تجویز کے خلاف ہیں۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان مئی ویلاسن نے اس تجویز کو ’احمقانہ‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا اس اقدام سے دیگر ملازمتیں کرنے والے افراد کی تنخواہوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ویلاسن نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’ہمارے فلاحی معاشرے کی بنیاد ایک مضبوط سکیورٹی نیٹ ورک ہے۔‘‘
کوپن ہیگن میں تارکین وطن کو ملازمتوں کے حصول میں مدد کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ میرکا موزیر نے بھی اس منصوبے کے قابل عمل ہونے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارے پاس بہت سی خواتین آتی ہیں جو ملازمت کرنا چاہتی ہیں، ہفتے میں 37 گھنٹے بھی کام کرنے کو تیار ہیں، لیکن ایسی ملازمتیں بھی زیادہ تعداد میں دستیاب ہونا چاہییں۔‘‘
سن 2018 میں اس تنظیم کے پاس 57 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تیرہ ہزار سے زائد تارکین وطن نے ملازمتوں کے حصول کے لیے رجسٹریشن کرائی تھی۔ موزیر کے مطابق وہ کئی ایسے اداروں سے رابطے میں ہیں جو غیر ملکی خواتین کو ملازمتوں کی پیش کش کرتے ہیں، لیکن ایسی نوکریوں میں ہفتے کے دوران صرف چار سے دس گھنٹے تک ہی کام کیا جا سکتا ہے۔
موزیر کہتی ہیں، ’’تارکین وطن خواتین میں سے کچھ یقینی طور پر اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر انہیں ہفتے میں 37 گھنٹے کام کرنے والی ملازمت نہ ملی تو ان کے لیے سماجی سہولیات بھی کم کر دی جائیں گی۔‘‘
یہ امر بھی اہم ہے کہ ڈنمار ک کی 60 لاکھ کی آبادی میں ترک وطن پس منظر رکھنے والوں کی تعداد 14 فیصد سے زائد بنتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ آبادی ترکی، شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کی ہے۔
ش ح/ع ا (اے پی، ڈی پی اے)