1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل امریکی امداد کو ’بلینک چیک‘ نہ سمجھے، ٹرمپ

صائمہ حیدر
22 اگست 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی فوجی دستے افغانستان میں شورش کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے۔ تاہم ٹرمپ نے واضح طور پر یہ نہیں بتایا کہ مزید کتنی تعداد میں امریکی فوجی افغانستان روانہ کیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/2id0y
USA Donald Trumps Gestik
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson

افغانستان سے متعلق نئی امریکی حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پیر اکیس اگست کی شام ایک تقریر میں کہا کہ امریکا اب کسی خاص مدت کے بجائے پاکستان، افغانستان اور دیگر کے ساتھ اپنی معاونت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والے نتائج اور اِن ممالک کے امریکا کے ساتھ تعاون سے مشروط کرے گا۔

ٹرمپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک علاقائی حکمت عملی ہو گی جس میں دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے کردار کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ ٹرمپ نے اس ضمن میں پاکستان پر عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے پر زور بھی دیا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا افغان حکومت کی مدد کرتا رہے گا لیکن یہ امداد ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور یہ کہ کابل کو امریکی امداد کو ’بلینک چیک‘ نہیں سمجھنا چاہیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کی کارروائیوں اور تعداد کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ تاہم ساتھ ہی ٹرمپ نے اشارتاﹰ کہا کہ وہ پینٹاگون کی چار ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کی تجویز کو قبول کریں گے۔

ماضی میں افغانستان سے امریکی افواج فوری طور پر واپس بلانے کے اپنے بیانات کے برخلاف ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یک دم امریکی فوجی افغانستان سے نکال لینے سے وہاں خلا پیدا ہو جائے گا اور دہشت گردوں کو دوبارہ پنپنے کا موقع ملے گا۔

Afghanistan Taliban
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد سابق جرنیل اور موجودہ وزیردفاع جم میٹس کو افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے حوالے سے مکمل اختیارات سونپے تھے، تاہم کئی ماہ گزرنے کے باوجود افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد آٹھ ہزار چار سو اور نیٹو فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار ہے۔

 ٹرمپ نے کہا کہ واشنگٹن حکومت اس ضمن میں نیٹو اتحادیوں اور عالمی رہنماؤں سے اپنی نئی حکمت عملی کی حمایت کے لیے بات کرے گی اور وہ پر یقین ہیں کہ امریکا کو یہ حمایت ملے گی۔

 افغان دارالحکومت کابل میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صدر ٹرمپ کی تقریر کو فرسودہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ مجاہد کا کہنا ہے کہ نئی امریکی پالیسی غیر واضح ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت نے امریکی صدر کی تقریر کا خیر مقدم کیا ہے۔ واشنگٹن میں تعینات افغان سفیر حمداللہ محب نے ٹیلیفون پر ایک انٹرویو میں کہا،’’ ہمیں وہی سننے کو ملا جس کی ہمیں ضرورت تھی۔‘‘

Jens Stoltenberg Pressekonferenz in Brüssel 04.11.2014
نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ نیٹو کے اتحادیوں نے پہلے سے ہی افغانستان میں اپنی موجودگی بڑھانے پر اتفاق کر رکھا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/Y. Logghe

اُدھر خبر رساں ادارے اے پی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ روز ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان کے لیے سخت الفاظ کو افغانستان میں سراہا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا عائد الزام کرتے ہوئے کہا تھا کہ پڑوسی ملک میں یہی دہشت گرد امریکی فوجیوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔

پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر صرف پاکستان کو مجرم قرار دے کر تنہا کیا گیا تو اس سے وہاں روس، چین اور ایران کا اثرورسوخ بڑھ سکتا ہے۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی امریکی صدر کی افغانستان میں نئی عسکری حکمت حملی کا خیر مقدم کیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ نیٹو کے اتحادیوں اور شراکت کاروں نے پہلے سے ہی افغانستان میں اپنی موجودگی بڑھانے پر اتفاق کر رکھا ہے تاکہ اس ملک کو دوبارہ دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے۔