کابل میں حملوں کے ثبوت پاکستان کو فراہم کر دیے، افغان حکام
1 فروری 2018کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر مظاہرین نے پاکستانی جھنڈے نذر آتش کیے اور ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ اگرچہ یہ مظاہرہ بہت بڑا نہیں تھا تاہم یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان اور پاکستان کے درمیان تناؤ کی فضا گزشتہ دو ہفتوں میں کابل میں ہوئے دو بڑے حملوں کے تناظر میں شدید بڑھ گئی ہے۔
افغان وزیر داخلہ ویس احمد برمک اور افغان خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ کے سربراہ معصوم ستانکزئی آج بروز جمعرات اسلام آباد سے کابل واپس پہنچے ہیں۔ خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ان کے گزشتہ روز اچانک اسلام آباد دورے کا مقصد پاکستانی حکام کو مبینہ طور پر ملک میں مقیم طالبان رہنماؤں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔
کابل واپسی پر افغان وزیر داخلہ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا، ’’ہم نے اسلام آباد حکومت کو پاکستان میں طالبان کے ٹھکانوں سے متعلق ثبوت فراہم کر دیے ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔‘‘ تاہم افغان وزیر داخلہ نے آپریشنل انٹیلیجنس کو خفیہ رکھنے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کیا۔
اطلاعات ہیں کہ ہفتہ بروز تین فروری پاکستان سے بھی ایک سکیورٹی وفد کابل جائے گا تاکہ اس مسئلے پر مزید بات چیت کی جا سکے۔ خیال رہے کہ امریکا نے پاکستان کو دی جانے والی کچھ امداد اسی تناظر میں بند کر دی ہے۔ امریکا کے بقول پاکستان نے اپنی سر زمین پر موجود طالبان کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔
کابل میں گزشتہ ماہ ہوئے دو بڑے حملوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔ ان میں سے ایک حملہ ایک لگژری ہوٹل پر کیا گیا جس میں تیس افراد مارے گئے تھے۔ دوسرا بڑا حملہ بارود سے بھری ایک ایمبولینس کے ذریعے وزارت داخلہ کی عمارت سے نزدیک مرکزی علاقے میں ہوا۔ اس حملے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
افغانستان کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت بھی الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں جنگجوؤں کے لیے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، جہاں سے جنگجو افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ تاہم پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ اس کے کسی جنگجو گروہ سے تعلقات ہیں۔