کابل کی شدید سردی، وطن لوٹنے والے مہاجرین مشکل میں
نارویجین ریفیوجی کونسل کے مطابق سن 2016 میں اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور پندرہ ہزار افغان شہریوں نے کابل میں رہائش اختیار کی۔ ان میں سے اکثر افغان خاندان انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کابل میں پچاس سے زائد ایسی بستیاں قائم ہیں
تھنک ٹینک ’سیمیول ہال‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کابل میں پچاس سے زائد ایسی بستیاں قائم ہیں جہاں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری یا پاکستان اور دیگر ممالک سے واپس آنے والے افغان مہاجرین نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔
پاکستان سے چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین افغانستان لوٹے
سن 2016 میں پاکستان سے چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین افغانستان لوٹے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن اور رضا کارانہ طور پر واپس جانے والے مہاجرین کو دی جانے والی رقم میں دوگنا اضافے کے باعث مہاجرین کی واپسی میں اضافہ ہوا ہے۔
انتہائی برے حالات
’سیمیول ہال‘ کے سروے کے مطابق کابل اور اس کے گرد و نواح میں قائم بستیوں میں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری یا پاکستان اور دیگر ممالک سے واپس آنے والے افغان مہاجرین انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اوسطاﹰ ہر خاندان کی ماہانہ آمدنی 6855 افغانی ہے۔
سوکھی گھاس کا استعمال
کابل کی ایک بستی میں افغان خاندان برفانی سردی سے بچنے کے لیے سوکھی گھاس استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان واپس آنے والے بہت سے خاندانوں کو خوراک، گرم کپڑوں اور مناسب رہائش کی کمی کا سامنا ہے۔
شالے خان کا خاندان
ستر سالہ شالے خان 1980 کی دہائی میں افغانستان کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ ساڑھے تین ماہ قبل شالے خان اور ان کے پوتے پوتیاں پاکستان سے خالی ہاتھ افغانستان پہنچے تھے۔ نارویجین ریفیوجی کونسل نے شالے خان کے خاندان کے لیے ایک گھر تعمیر کیا ہے۔ اب کابل کی شدید سردی میں ان کے پاس رہائش کا مناسب انتظام ہے۔
سردی نے مشکلات بڑھا دیں
ایک نوجوان لڑکا امدادی ادارے کی جانب سے دیے جانے والے پمپ کی مدد سے پانی نکال رہا ہے۔ آس پاس کئی افغان مہاجرین اور اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری رہائش پذیر ہیں۔
گرم پانی کی کمی
افغانستان کے صوبے وردک سے نقل مکانی کرنے والی ایک افغان خاتون کابل کے نواح میں برف کے پانی سے کپڑے دھو رہی ہے۔
کابل میں برف باری
اس ہفتے برف باری نے کابل شہر کو برف سے ڈھک دیا ہے۔ برف باری اور شدید ٹھنڈ نے افغان شہریوں کی مشکل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
مہاجرین بچے
اپنے وطن واپس پہنچنے والے یہ مہاجرین بچے برف میں کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ نارویجین ریفیوجی کونسل کی جانب سے ان بچوں کو کمبل، گرم لباس اور جوتے فراہم کیے گئے تھے۔ تاہم اس ادارے کا کہنا ہے کہ کابل میں اب بھی کئی خاندانوں کو سردی کے موسم کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔
مسکراتے چہرے
سات سالہ بی بی ہوا اور ایک سالہ شکریہ کیمرے کو دیکھ کر مسکرا رہی ہیں۔ بی بی ہوا کو سردی سے بچاؤ کے لیے مناسب خوراک اور لکٹری یا گیس کے ہیٹر کی ضرورت ہے۔
خوراک کی کمی
پاکستان سے اپنے وطن لوٹنے والی ان افغان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کو مناسب مقدار میں خوراک میسر نہیں ہے۔ یہ اور ان کے اہل خانہ دو وقت ہی کھانا کھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس نہ ہی کوئلہ ہے اور نہ ہی لکڑی اس لیے وہ آگ جلا کر اپنے بچوں کو سردی سے نہیں بچا سکتیں۔
شائمہ اور عائشہ
ایک سالہ شائمہ اور آٹھ سالہ بی بی عائشہ امدادی ادارے کی جانب سے تعمیر کیے گئے گھر کے باہر کھڑی ہیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں رہنے والا ان کا خاندان آٹھ ماہ قبل افغانستان پہنچا تھا۔