کانکون کانفرنس کے اختتام پر امید کی ایک کرن
13 دسمبر 2010اقوام متحدہ کے ماحولیاتی مذاکرات سے پہلے ہی کوئی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا رہی تھیں۔ ان معمولی سی توقعات پر بھی پورا نہ اترنا تھوڑا مشکل ہی تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانفرنس کے اختتام تک ایسا ہی لگ رہا تھا کہ جانے کوئی اتفاقِ رائے عمل میں بھی آ سکے گا یا نہیں۔
اِس کانفرنس میں زیرِ بحث آنے والے موضوعات کا تعلق کیوٹو پروٹوکول سے شروع ہونے والے عمل کو جاری رکھنے، اُستوائی جنگلات کے تحفظ کے لئے ضوابط متعارف کروانے، ایک عالمگیر ماحولیاتی فنڈ کا ڈھانچہ وضع کرنے اور خاص طور پر اِس سوال سے تھا کہ آیا 194 رکن ملکوں کے درمیان سن 2020ء تک زمینی درجہء حرارت میں زیادہ سے زیادہ دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے ہدف پر اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے۔
بالآخر 193 ممالک اِس ہدف پر متفق ہو ہی گئے جبکہ ایک ملک بولیویا کا احتجاج اختتامی دستاویز کو منظور ہونے سے نہ روک سکا۔ یہ بھی اچھا ہی تھا کیونکہ اِس امکان کے ساتھ کہ زمینی درجہء حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی محدود رکھا جا سکتا ہے، ماحولیاتی عمل میں ایک بار پھر اُمید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔ اِس ہدف پر خاص طور پر بحرالکاہل کی وہ چھوٹی ریاستیں زور دے رہی ہیں، جنہیں سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہونے کے نتیجے میں ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہے۔
اِس بات کا اعتراف کھلے عام کیا جا رہا ہے کہ صنعتی ممالک نے کوپن ہیگن میں رضاکارانہ طور پر اپنے لئے جو اہداف مقرر کئے تھے، وہ دو ڈگری کے ہدف سے نیچے نیچے رہنے کے لئے کافی نہیں ہوں گے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خاص طور پر صنعتی ملکوں میں، جن پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی تاریخی ذمہ داری بھی عاید ہوتی ہے، ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی مقدار میں مزید کمی کی جانا پڑے گی۔
سائنسی معلومات کو دیکھتے ہوئے اِس طرح کی مراعات کے لئے آمادگی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، اگر ہم یہ سوچیں کہ کوپن ہیگن میں 2009ء کی کانفرنس میں دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت و حکومت کی ناکامی کے بعد اتفاق رائے کی منزل کتنی دور چلی گئی تھی۔
یہ زبانی باتیں اپنی جگہ ایک بڑی کامیابی سہی لیکن جب تک کوئی ٹھوس وعدے نہیں کئے جائیں گے تب تک کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جب وعدوں کو عملی شکل دینے کی بات آتی ہے تو مختلف ملک خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جرمن وزیر ماحول نوربرٹ روئٹگن نے بجا طور پر کہا ہے کہ ماحولیاتی کانفرنسیں اقتصادی کانفرنسوں کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنسوں میں شریک صنعتی ممالک ایک نئی اور ’سبز‘ معیشت کی تشہیر کرتے نہیں تھکتے۔ ترقی پذیر ملکوں کو ’ٹیکنالوجی ٹرانسفر‘ کرنے کا ذکر سننے کو ملتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ دوست معیشت کی باتیں کی جاتی ہیں۔ کلب آف روم چالیس سال پہلے ہی اپنی رپورٹ ’اقتصادی ترقی کی حدود‘ م یں یہ انتباہ کر چکا ہے کہ ہماری اِس دھرتی کے وسائل محدود ہیں۔ تاہم اِس حقیقت کا اداراک نہ تو ماحولیاتی مذاکرات میں دیکھنے میں آتا ہے اور نہ ہی مالیاتی منڈیوں میں۔
ابھی بھی ایسا طرزِ عمل اختیار کیا جا رہا ہے گویا موسمیاتی تبدیلیاں محض صعتی ترقی کی تاریخ میں ایک چھوٹی سی تکنیکی خرابی ہی ہیں۔ ایسے میں یہ بات باعث تعجب نہیں ہونی چاہئے کہ خاص طور پر وہ نوجوان، جو اِس ماحولیاتی کانفرنس کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی کو دیکھ رہے تھے، اب مایوس ہو کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔ اگرچہ کانکون کی اِس کانفرنس کو مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہونے سے بچا لیا گیا لیکن کوئی ایسی ٹھوس چیز بہرحال سامنے نہیں آئی، جو اِن مذاکرات کے مستقبل کو آسان بنا سکتی ہو۔ ماحولیات کے موضوع پر اقوام متحدہ کے مذاکرتی عمل کو تو سردست بچا لیا گیا ہے لیکن ماحول کو بچانے کی منرل ابھی بہت دور ہے۔
تبصرہ: ہیلے ژیپیسن (ڈوئچے ویلے)، کانکون / امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق