کنکون کانفرنس کا ڈرافٹ مسودہ پیش
11 دسمبر 2010یہ نکتہ کوپن ہیگن کانفرنس میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ میکسیکو کے سیاحتی شہر میں جمعہ کی رات گئے تک دنیا کے لگ بھگ 192 ممالک کے نمائندے طویل بحث و مباحثے میں مصروف رہے۔ ’’گرین کلائمٹ فنڈ‘‘ کا قیام بھی تجویز کیا گیا ہے جسے ترقی پزیر و ترقی یافتہ ممالک کی نمائندگی والا 24 رکنی بورڈ سنبھالے گا۔
اگلے چند سالوں میں ماحول کی بہتری کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے اندازے لگائے جارہے ہیں۔ کنکون میں پیش کی گئی ڈرافٹ دستاویز کے مطابق ایسے نئے بین الاقوامی ادارے جنہیں یہ فنڈ ملیں گے، انہیں ابتدائی تین سال تک عالمی بینک کا ٹرسٹی بن کر رہنا پڑے گا۔ واشنگٹن میں قائم عالمی بینک پر بعض حلقے بھروسہ نہیں کر رہے جو اس معاملے کو التواء میں ڈال سکتا ہے۔
جنوب امریکی ممالک بولیویا اور وینزویلا کی جانب سے کنکون ڈرافٹ کو اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا ہے کہ اس میں انہیں دنیا بھر سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بولیویا کے وزیر پابلو سولون کا کہنا ہے کہ اس ڈرافٹ میں امریکہ کو بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے اور یہ دراصل کوپن ہیگن کانفرنس ہی میں پیش کی گئی امریکی تجویز جیسا ہے۔
کنکون کانفرنس کے میزبان ملک میکسیکو نے ڈرافٹ مسودہ عام کرتے ہوئے اسے قدرتی ماحول کے بچاؤ کی جانب انتہائی اہم پیشرفت قرار دیا۔ مسودے کے مطابق ترقی پزیر ممالک کے لئےیہ فنڈ عالمی درجہ حرارت میں کمی اور جنگلات کی بقاء کے ضمن میں مختص کیا گیا ہے۔ اس مسودے کو اقوام متحدہ کی قراردار کی شکل میں ڈھلنے کے لئے کنکون کانفرنس میں شریک تمام ممالک کی حمایت درکار ہوگی۔ فی الحال اسے وزراء کے گروپ کی توثیق حاصل ہوئی ہے۔
کوپن ہیگن کی ناکامی سے سبق سیکھتے ہوئے اس بار جارحانہ طور پر جامع معاہدے کے حصول کی کوششیں نہیں کی گئیں بلکہ ایسے عمل کو دوام دیا گیا جس پر اگلے سال جوہانسبرگ میں پیشرفت ہوسکے گی۔
ایک سو ارب ڈالر کے فنڈ کا عہد گزشتہ سال کوپن ہیگن ہی میں کیا گیا تھا۔ اس کے تحت 2020 سے ہر سال امیر ممالک اس فنڈ سے ایسے ترقی پزیر ممالک کو امداد فراہم کریں گے جو زہریلی سبز مکانی گیسوں سے نمٹ رہے ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا شکار ہیں یعنی خشک سالی، طوفان یا گرمی کی شدید لہر۔
ترقی پزیر ممالک کا مؤقف ہے کہ چونکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہیں لہذا وہ صنعتی انقلاب کے بعد سے کاربن گیس کے اخراج کا حساب لگاکر کوئی فنڈ قائم کریں۔ اسی تناظر میں چین، بھارت اور برازیل جیسے ممالک کا مؤقف ہے کہ وہ اپنے یہاں کاربن گیس کے اخراج میں فی الحال زیادہ کمی اس لئے نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ترقی اور غربت کے خاتمے کی راہ پر گامزن ہیں۔
ماحول کے بچاؤ کے لئے سرگرم تنظیمیں یہ آس لگائے بیٹھی ہیں کہ امداد کی فراہمی کے پکے وعدوں کے سبب کلائمٹ مذاکرات کے سلسلے میں تسلسل برقرار رہ پائے گا۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف توقیر