بھارتی دیہات میں جرمن فلاحی تنظیم کے سولر لیمپ
9 دسمبر 2010بون کی اس تنظیم ’’گرین انرجی اگینسٹ پاورٹی‘‘ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی مدد سے بھارت کے دیہات میں بسنے والوں کا معیارِ زندگی بھی بلند کیا جا سکے گا اور ٹنوں کے حساب سے کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی بچائی جا سکے گی۔ دیہاتی اپنے شمسی توانائی سے چلنے والے لیمپ صبح صبح خصوصی مراکز میں دے جاتے ہیں، جہاں اِن کی مرمت وغیرہ بھی کی جاتی ہے اور اِنہیں شمسی توانائی کی مدد سے چارج بھی کیا جاتا ہے۔ شام کو دیہاتی آ کر اپنے یہ لیمپ دوبارہ واپس لے جاتے ہیں۔
بھارتی ریاست اُڑیسہ میں واقع چھوٹے سے گاؤں کانٹاپاڈا میں جب رات آتی ہے، تو وہاں کے باسیوں کے لئے مٹی کے تیل سے چلنے والے دیے روشنی کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔ بھارت کے گرم ترین خطوں میں سے ایک ہونے کے باوجود یہاں شمسی توانائی سے اب تک زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مٹی کے تیل کے دیے مہنگے بھی ہیں، خطرناک بھی اور ماحول کے لئے نقصان دہ بھی۔
جرمن تنظیم ”گرین انرجی اگینسٹ پاورٹی“ سے وابستہ گیورگ اَمزہوف بتاتے ہیں:’’ہم نہیں چاہتے کہ لوگ مزید مٹی کے تیل سے چلنے والے لیمپ استعمال کریں۔ اِس کے غیر محفوظ شعلے کے نتیجے میں متعدد مرتبہ آگ لگی ہے اور اِس کی روشنی بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ ہم شمسی توانائی سے چلنے والے جدید لیمپ فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کے پاس روشنی بھی زیادہ ہو اور اُن کا معیارِ زندگی بھی بلند ہو۔‘‘
گیورگ اَمزہوف نے عطیات کی مدد سے ایک ایسا لیمپ تیار کیا ہے، جو بھارتی دیہات میں استعمال کے لئے موزوں ہے، یہ سائز میں چھوٹا ہے، وزن میں ہلکا ہے اور استعمال میں سادہ اور آسان ہے۔ بھارت میں امزہوف کی ساتھی کمپنی کا نام ہے، ”اپلائیڈ اینوائرنمینٹل ریسرچ فاؤنڈیشن“۔ اِسی کمپنی سے وابستہ ہیں، جینت سرنائیک، وہ بتاتے ہیں:’’ان لیمپوں کے کئی فوائد ہیں۔ انہیں دور دراز بسنے والے لوگ بھی آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں کہ آئے، چارج کروایا اور شام کو گھر لے گئے۔ اِس طرح بجلی کے نظام سے منسلک نہ ہونے کے باوجود اُن کے پاس روشنی ہوتی ہے۔‘‘
ان نئے لیمپوں کی روشنی شمسی سیلز سے آتی ہے۔ یہ سیلز چونکہ مہنگے ہوتے ہیں، اِس لئے یہ لیمپوں کے اندر نصب نہیں ہوتے۔ ان لیمپوں کو گاؤں میں ایک علٰیحدہ جھونپڑی میں قائم ایک مرکز میں چارج کیا جاتا ہے، جس کی چھت پر سولر پینل لگے ہوئے ہیں۔ وہاں موجود ایک ٹیکنیشن ان لیمپوں کو چارج کرتا ہے، اُن کی مرمت کرتا ہے، خراب بیٹریاں بدلتا ہے۔ اِس طرح صبح اپنا لیمپ وہاں لانے والے دیہاتی شام کو چارج شُدہ لیمپ واپَس گھر لے جاتے ہیں۔
اِس خصوصی سروس کے لئے وہ مہینے میں اتنی رقم ادا کرتے ہیں، جو تقریباً تیس سینٹ کے برابر بنتی ہے۔ اِس رقم میں سے اِس مرکز کے ٹیکنیشن کی ماہانہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ کچھ بحت بھی کی جاتی ہے تاکہ اگلے چند برسوں کے دوران نئے لیمپ لائے جا سکیں۔
جینت سرنائیک بتاتے ہیں:’’یہ لیمپ پیٹرولیم لیمپوں کے مقابلے میں سستے پڑتے ہیں۔ ایک عام گھرانہ پیٹرولیم کے لئے مہینے میں ایک سو روپے خرچ کرتا ہے، اِس کے برعکس ایل ای ڈی لیمپ کے لئے اُنہیں صرف دو روپے روزانہ ادا کرنا پڑتے ہیں۔‘‘
گزشتہ مہینوں کے دوران بون کی یہ تنظیم ایسے چار شمسی مراکز قائم کر چکی ہے۔ ہر مرکز تقریباً ایک سو کنبوں کو روشنی فراہم کرتا ہے۔ یہ شمسی لیمپ ماحول کے لئے ضرر رساں کاربن گیسوں کی بھی بچت کرتے ہیں۔ ایسا ایک مرکز سالانہ تقریباً دَس ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ بچاتا ہے۔ تاہم اس بات کی اہمیت سے ان دیہاتیوں کے مقابلے میں وہ لوگ کہیں زیادہ واقف ہیں، جو اِس منصوبے کے لئے عطیات دیتے ہیں۔
بون کی اِس تنظیم کے خیال میں یہ منصوبہ متعلقہ گاؤں کے باسیوں کی ترقی کا باعث بھی بنے گا کیونکہ اس سستی روشنی کی وجہ سے دیہاتیوں کو جو بچت ہو گی، اُسے وہ اپنی صحت پر یا اپنے بچوں کو اسکول وغیرہ بھیجنے پر خرچ کر سکیں گے۔
رپورٹ: تھیریسا ٹروپر / امجد علی
ادارت: افسر اعوان