’سولرامپلس‘ کی کامیاب تجرباتی پرواز
8 جولائی 2010جمعرات کو مکمل ہونے والی اس تاریخی آزمائشی پرواز سے اب بہت سی امیدیں وابسبتی کی جانے لگی ہیں۔
'سولر امپلس‘ نامی اس ہوائی جہاز کی آزمائشی پرواز کوئی 26 گھنٹوں پر محیط تھی اور پہلی مرتبہ اس ہوائی جہاز کو ایک پائلٹ کی مدد سے اڑایا گیا۔ پائلٹ آندرے بورش بیرگ نے کامیاب ٹیسٹ پرواز کے بعد شمسی توانائی سے چلنے والے اس ہوائی جہاز کو جمعرات کو عالمی وقت کےمطابق صبح سات بج کر ایک منٹ پر مغربی سوئٹزرلینڈ میں Payerne ائیر بیس پر اتارا۔
اس کامیاب پرواز کے بعد اس منصوبے کے روح رواں بیرتراں پیکارد نے کہا: ’’یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سورج کی روشنی سے اڑنے والا کوئی ہوائی جہاز تمام رات اڑایا گیا ہو۔‘‘ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا منصوبہ کامیاب ہو گیا ہے۔
’سولر امپلس‘ کے ستاون سالہ پائلٹ آندرے بورش بیرگ نے خبررساں ادارے AFP کو بتایا: ’’دوران پرواز مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں تیر رہا ہوں۔ مجھے اس وقت بھی ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں ہوا میں ہوں۔‘‘ انہوں نے اس منصوبے کی تکمیل پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کامیابی نے ان کے لئے مزید راستے کھول دئے ہیں اور اب وہ اسی سوچ کے تحت دیگر منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے۔
صرف ایک سیٹ والے ’سولر امپلس‘ نامی ہوائی جہاز کو بدھ کی صبح عالمی وقت کے مطابق چار بج کر اکاون منٹ پر اڑایا گیا تھا۔ سورج کی روشنی سے حاصل کردہ توانائی کی مدد سے پرواز کرنے والے اس جہاز میں اتنی مضبوط بیٹریاں نصب کی گئی تھیں، جو رات کی تاریکی میں بھی اس جہاز کو ایندھن فراہم کرتی رہیں۔
اس پرواز سے قبل اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں رات کےاندھیرے میں ایندھن کا ذخیرہ کم ہو جانے یا مکمل طور پر استعمال ہو جانے کے نتیجے میں یہ ہوائی جہاز کریش نہ ہو جائے۔ تاہم اس منصوبے کی کامیابی پر ’سولرامپلس‘ کی ٹیم نے اب یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ آئندہ چند سالوں کے دوران اسی ہوائی جہاز کے ذریعے دنیا کا چکر لگانے کی کوشش بھی کرے گی۔
اس منصوبے کے مطابق ’سولر امپلس‘ نے گزشتہ جمعرات کو اپنی تجرباتی پرواز کرنا تھی تاہم چند تکنیکی وجوہات کی بنا پر یہ پرواز موخر کر دی گئی تھی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک