کانکون کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بے یقینی
2 دسمبر 2010پاکستان میں تاریخ کا بدترین سیلاب، آسٹریلیا میں خشک سالی اور وینس بتدریج اپنے اردگرد پھیلے پانی میں ڈوبتا ہوا: دیکھا جائے تو پوری دُنیا ہی آج کل موسمیاتی آفات کی زَد میں ہے۔ ایک اعتبار سے انسان خود ہی اِس صورتِ حال کا ذمہ دار بھی ہے۔ کارخانوں اور ٹریفک کا دھواں ضرر رساں گیسوں کی صورت میں زمین کی فضا کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ تازہ ترین اندازوں کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب اتنا زیادہ کبھی بھی نہیں تھا، جتنا کہ آج کل ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور اُن کے بڑھتے ہوئے تباہ کن اثرات پر بات کرنے کے لئے آج کل میکسیکو کے شہر کانکون میں دُنیا کے تقریباً دو سو ملکوں سے گئے ہوئے پندرہ ہزار مندوبین جمع ہیں۔ اِن میں حکومتی عہدیدار بھی شامل ہیں، صحافی بھی اور تحفظ ماحول کے لئے سرگرم غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے بھی۔ دَس دسمبر تک جاری مذاکرات میں موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کے سلسلے میں کسی اتفاقِ رائے پر پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ گزشتہ سال کوپن ہیگن میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد کانکون میں بھی کسی ٹھوس پیش رفت کی توقع کم ہی دکھائی دے رہی ہے۔
ڈنمارک کی خاتون وزیر ماحول لیوکے فریس اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس سی او پی یعنی کانفرنس آف دی پارٹیز کی چیئر پرسن بھی ہیں اور عنقریب اس عہدے سے رخصت ہونے والی ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں:’’ہم سب جانتے ہیں کہ کامیابی ایک ہی کوشش میں سامنے نہیں آئے گی۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ کسی عالمگیر ماحولیاتی سمجھوتے پر پہنچنے کے لئے کانکون کے بعد بھی بات چیت کے کئی ادوار ضروری ہوں گے۔ اِس لئے یہاں کانکون میں ہماری توجہ اُن باتوں پر ہونی چاہئے، جو ہم حاصل کر سکتے ہیں نہ کہ اُن باتوں پر، جو ہم حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘
جو باتیں قابلِ حصول ہیں، اُن میں وہ کوپن ہیگن سمجھوتہ بھی شامل ہے، جس کا وعدہ گزشتہ سال کی ماحولیاتی کانفرنس میں کیا گیا تھا۔ اِس معاہدے میں موسمیاتی اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کو 2010ء تا 2012ء 30 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اِن میں وہ رقوم بھی شامل کر لی گئی ہیں، جو پہلے ہی کسی اور منصوبے کے لئے مختص کی جا چکی ہیں اور یوں یہ سارا معاملہ شفاف نہیں ہے۔
اگر کانکون کانفرنس بھی اِس سمجھوتے کے حوالے سے شفافیت کا اہتمام نہیں کر پاتی تو پھر اُس بین الاقوامی ماحولیاتی فنڈ کے سلسلے میں بھی شکوک و شبہات جنم لیں گے، جو سن 2020ء کے بعد کے دَور کے لئے قائم کیا جانا ہے۔ 2020ء کے بعد سے ہر سال کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی اور دیگر ماحولیاتی اقدامات پر ایک سو ارب ڈالر خرچ کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ جہاں بہت سے صنعتی ممالک ا ور خاص طور پر امریکہ کا اصرار ہے کہ اِس خصوصی فنڈ کی نگرانی عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ذمے ہونی چاہئے، وہاں بہت سے ترقی پذیر ملک کو اِن دونوں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ اشتراکِ عمل کے کوئی اچھے تجربات نہیں ہیں۔
تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیم گرین پیس سے وابستہ جرمن ماہرِ ماحولیات مارٹِن کائیزر اِس بارے میں کہتے ہیں:’’خاص طور پر وہ چھوٹے ترقی پذیر ممالک، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید ترین اثرات کا سامنا ہے، اِس بات کی مخالفت کر رہے ہیں کہ عالمی بینک جیسے مالیاتی ادارے ماحولیاتی فنڈ کے لئے سرمایہ فراہم کریں کیونکہ وہاں ان چھوٹے ملکوں کو فیصلوں میں شرکت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔‘‘
کوپن ہیگن میں جمع عالمی رہنماؤں کے درمیان زمینی درجہء حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے پر اتفاق ہوا تھا لیکن یہ ہدف حاصل کیسے ہو گا، یہ بات ابھی بھی غیر واضح ہے۔ اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کونسل کی سربراہ کرسٹیانا فگیریس کہتی ہیں:’’حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مختلف ممالک کی طرف سے کئے گئے تمام وعدے پورے بھی ہو جائیں اور دُنیا توقع کر رہی ہے کہ وہ پورے ہوں گے، تو بھی یہ چیز زمینی درجہء حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے سلسلے میں ناکافی ہو گی۔‘‘
اِس ہدف کے حصول کے لئے یہ بھی اہم ہے کہ زمین کی آب و ہوا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے ممالک امریکہ اور چین بھی باقی دُنیا کا ساتھ دیں۔ جرمن ماہرِ ماحولیات مارٹِن کائیزر کے مطابق بین الاقوامی برادری کو اب مزید اِس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ امریکہ اُس پر اپنی مرضی مسلط کرے:’’اِن مذاکرات میں بھی امریکہ اپے موقف میں کوئی لچک پیدا نہیں کرے گا۔ اہم بات لیکن یہ ہے کہ دیگر ممالک اب مزید امریکہ کو ان مذاکرات میں پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں۔‘‘
اگر کانکون میں جمع 194 ممالک کسی بنیادی اتفاقِ رائے پر بھی نہیں پہنچ پاتے، تو پھر یہ مذاکرات سرے سے ہی ناکام ہو جائیں گے اور اقوام متحدہ کا سارا عمل ہی اپنا اعتبار کھو دے گا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ