کانگریس انتخابات میں اوباما کی ناکامی: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
3 نومبر 2010ان انتخابات کے نتائج دراصل صدرر باراک اوباما کی پالیسیوں کے بارے میں ملک میں پائے جانے والے عدم اطمینان کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اوباما کو اب اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان انتخابات سے نتائج اخذ کرنا ہوں گے۔ واشنگٹن میں موجود کرسٹینا بیرگمان کا کہنا ہے : امریکی صدر کو لگنے والا یہ دھچکہ متوقع تھا۔ باراک اوباما نے بیک وقت سب کچھ صحیح کرنے کی کوشش کی۔ انہیں اب جا کر یہ اندازہ ہوا کہ وہ ہر طرف سے گھر گئے ہیں۔ قدامت پسندوں کی ناراضگی کی وجہ اوباما کی صحت سے متعلق اصلاحاتی پالیسی بنی، جسے وہ عوامی زندگی میں ریاست کی بےجا مداخلت سمجھتے ہیں۔ اوباما اس موضوع پر ہونے والی بحث میں بر وقت غلبہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اب یہ واضح ہو جانا چاہئے کہ صرف اچھے کام کرنا ہی کافی نہیں ہوتا، اُن پر بات چیت بھی کی جانی چاہئے۔
خود اوباما کے وفادار حامیوں کی طرف سے اُن پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے پالیسی سازی میں درست ترجیحات نہیں رکھیں۔ ان ناقدین کا کہنا ہے کہ صحت کی یالیسیوں میں اصلاحات کی بجائے اوباما کو ملکی اقتصادیات پر توجہ دینی چاہئے تھی۔ گرچہ اوباما نے اپنے صدارتی دور کے شروع میں تو اقتصادی مسائل پر توجہ دی تاہم بہت جلد ہی اُن کی حکومت یہ سمجھنے لگی کہ ملک اقتصادی نمو کی طرف گامزن ہو گیا ہے۔ ایک طرف یورپ کے اقتصادی بحران نے ان کی پالیسیوں کو ناکام بنا دیا، دوسری جانب امریکہ میں بیروزگاری کی شرح میں واضح اضافہ ہوا۔ باراک اوباما نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بہت دیر لگا دی کہ جب عوام گوناگوں مسائل سے دو چار ہوتے ہیں تو اُن کی انگلیاں ہمیشہ وائٹ ہاؤس کی طرف اُٹھتی ہیں۔
باراک اوباما نے بہت سے ایسے ووٹروں کو بھی ناراض کر دیا، جو روایتی طور پر ہمیشہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو ہی ووٹ دیا کرتے تھے۔ خاص طور پر فوج میں ہم جنس پرست مردوں کی بھرتی سے متعلق قوانین وضع کرنے کے عمل میں جس طرح کا پس و پیش دیکھنے میں آیا، اُس کی وجہ سے بھی اوباما کے بہت سے حامیوں نے اُن کو ووٹ نہیں دئے اور یوں اُن پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔ جبکہ اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں اس روایت کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی طرح اُن کا وہ وعدہ بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دیا، جس کے تحت ایک سال کے اندر اندر گوانتانامو کی جیل کو بند ہو جانا چاہئے تھا۔
سب سے بڑھ کر اوباما نے اس امر کو نظر انداز کیا کہ پورے امریکہ میں رائے دہندگان پہلے کی طرح اب بھی واشنگٹن سے زیادہ توقعات نہیں رکھتے۔ دو سال قبل اوباما نے عوام کی اِس عمومی سوچ سے فائدہ اُٹھایا۔ انہوں نے دارالحکومت کی روایتی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ ایسا کر نہ سکے۔ ریپبلکنز اور ڈیمو کریٹس کے مابین خلیج اس سے پہلے اتنی گہری کبھی نہیں تھی۔ پارٹی سطح سے بالا تر ہو کر سوچنے کے سلسلے میں اوباما کے وعدے کو پورا ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ ہر بات کا قصور وار ریپبلکنز اور سابقہ حکومت کو ٹھہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ریپبلکنز ویسے ہی ہر معاملے کی مخالفت اور نفی کرنے میں مہارت حاصل کر چُکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کو سابق صدر بُش نے مشکلات اور بحرانوں میں دھکیلا تھا۔ تاہم اب یہ سب کچھ ماضی بن چکا ہے۔ واشنگٹن اس وقت باراک اوباما ہے۔ اس امر کا اندازہ اوباما کو ان انتخابات کے دن بڑی شدت سے ہوا ہو گا۔
تبصرہ: کرسٹینا بیرگمان
تحریر: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی