کشمیر: سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت کے بعد جھڑپیں
14 مئی 2020پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ پچیس سالہ کشمیری نوجوان معراج الدین پیر شاہ کی ہلاکت کے بعد شروع ہوا۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پیرا ملٹری فورسز نے پیر شاہ کو بدھ کے روز سری نگر کے نواح میں ایک چیک پوائنٹ پر گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا اور نوجوان چند گھنٹوں بعد ہلاک ہو گیا تھا۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ نوجوان کو چیک پوائنٹ پر رکنے کا اشارہ کیا گیا تھا جو اس نے نظر انداز کر دیا، تاہم معراج الدین کے والدین نے سکیورٹی فورسز کا دعویٰ مسترد کر دیا۔
'سرد مہری سے قتل کیا گیا‘
بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ نوجوان کو چیک پوائنٹ پر روکنے کی کوشش کی گئی 'خبردار کرنے کے لیے گولیاں چلائی گئیں لیکن اس نے پھر بھی گاڑی نہ روکی‘۔
پیر شاہ کے والد غلام نبی نے پولیس کا بیان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا چیک پوائنٹ سے گاڑی چلا کر نہیں گزرا تھا اور اسے 'سرد مہری سے قتل‘ کیا گیا۔ غلام نبی نے کہا، ''اگر فوجیوں نے چیک پوائنٹ سے فرار ہونے کی کوشش کی دوران گولیاں چلائی ہوتیں تو گاڑی پر بھی گولیوں کے نشانات ہوتے۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: عسکریت پسندوں کی ہلاکتیں: کشمیری جماعتوں کا منقسم ردعمل
ایک عینی شاہد نے رپورٹرز کو بتایا کہ چیک پوائنٹ پر فوجیوں نے نوجوان کو رکنے کا اشارہ کیا تو اس نے گاڑی روک دی تھی۔ عینی شاہد نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، رپورٹرز کو بتایا، ''ایک سکیورٹی اہلکار نے اسے کچھ کہا تو اس نے جواب میں بتایا کہ کوئی ایمرجنسی ہے۔ اس کے بعد اسے جانے دیا گیا لیکن جب وہ واپس گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اس کی پشت پر گولی مار دی گئی۔ اسے جان بوجھ کر قتل کیا گیا۔‘‘
بھارت مخالف مظاہرے
نوجوان کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی سری نگر میں سیکنڑوں رہائشی سڑکوں پر نکل آئے اور آزادی کے حق اور بھارت کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ معراج الدین پیر شاہ کی لاش تدفین کے لیے لواحقین کے حوالے کی جائے تاہم بھارتی سکیورٹی اہلکاروں نے فوری طور پر ایسا نہ کیا۔
یہ بھی پڑھیے: کشمیر:حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نائیکو ہلاک
سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گن اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس پر مظاہرین نے سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
اس واقعے کے بعد حسب سابق انتظامیہ نے علاقے میں انٹرنیٹ بند کر دیا۔ واقعے کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا گیا ہے تاہم انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور کارکنوں کے مطابق ایسی تحقیقات شاذ و نادر ہی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں۔
ش ح / ع س (اے پی، اے ایف پی)