کشمیر میں میڈیا کے لیے بھارتی حکومت کی نئی پالیسیاں
10 جون 2020بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں میڈیا کے تعلق سے ایک نئی پالیسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں کسی بھی صحافی کے ایکریڈیشن کے لیے اس کا سکیورٹی چیک لازمی قرار دیا گیاہے۔ اخبار کے رجسٹریشن اور حکومتی اشتہارات تک رسائی کے لیے مالکان، ایڈیٹرز اور دیگرملازمین کے بیک گراؤنڈکو چیک کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اس سے متعلق پچاس صفحات پر مشتمل پالیسی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ''جموں کشمیر میں امن قانون اور سکیورٹی ایک اہم مسئلہ رہا ہے، ریاست سرحد پار سے حمایت یافتہ سے ایک جنگ لڑتی رہی ہے اور اس تناظر میں سماج مخالف عناصر اور ملک دشمن عناصر کی جانب سے امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے کی کوششوں کو روکنا ضروری ہے۔''
اس نئی پالیسی کے تحت حکومت اخبار، ٹی وی چینلز یا دیگر میڈیا میں شائع یا نشر ہونے والے مواد کی نگرانی کرے گی اور سرکاری حکام یہ فیصلہ کریں گے کہ فرضی خبر کون سی ہے اور سماج مخالف یا پھر ملک مخالف رپورٹنگ کیا ہے۔ جو میڈیا تنظیمیں فرضی خبریں یا پھر ملک مخالف خبریں شائع کرنے کی مرتکب پائی جائیں گے ان کا رجسٹریشن ختم کر دیا جائیگا، حکومت کے اشتہارات بند کر دیے جائیں گے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
نئی پالیسی کے مطابق اگر کسی نے جعلی خبر نشر کی، یا پھر دو فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں حکومت سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور ان سے خبروں سے متعلق معلومات شیئر کی جائیگی تاکہ وہ خبروں پر اپنا موقف پیش کرسکے کہ خبر منفی ہے یا مثبت۔
صحافیوں کے ایکریڈیشن کے لیے بھی نئی پالیسی مرتب کی گئی ہے جس میں صحافی کا پورا بیک گراؤنڈ اور ماضی کی ان کی سرگرمیاں چیک کرنا شامل ہے۔ بھارت میں عام طور پر میڈیا کے لیے حکومت کی جانب سے اس طرح کے گائیڈ لائنز کا چلن نہیں رہا ہے اور میڈیا ادارے اپنے مرتب کردہ اصولوں کی پابند ہیں۔ تاہم کشمیر میں وقت کے ساتھ آزاد صحافت مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
سرینگر کے صحافی الطاف حسین کا کہنا ہے کہ ''یہ نئی پالیسیاں حکومت کی جانب سے کشمیری صحافت کو دبانے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔'' ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا، کہ بھارت میں قومی سطح پر بھی اب صحافت کہاں بچی ہے۔ بھارتی میڈیا کے پاس حکومت کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کے سوا کیا ہے۔ ''کشمیر کی مقامی صحافت اصل جرنلزم پر یقین رکھتی ہے تاہم انتظامیہ نے اتنی مشکلیں کھڑی کر دی ہیں کہ ''کشمیری میڈیا بھی وہی کرنے لگا ہے جو بھارتی میڈیا کر رہا ہے۔''
الطاف حسین کے مطابق مقامی میڈیا پر حکومت کا ''معاشی اور جیل جانے کا دباؤ ہے۔ سیاسی صورتحال پر یہاں کا میڈیا خاموش ہے۔ پہلے حریت رہنماؤں کے بیانات شائع ہوتے تھے اب برائے نام ہوتے ہیں۔ اگر آزاد صحافی کے طور پر میں آج ایک مضمون لکھوں تو اسے کشمیر کا شاید ہی کوئی اخبار شائع کرے گا۔ انہیں اب بہت خوف ہے۔''
الطاف حسین کے مطابق کشمیر میں میڈیا پر اس طرح کی بندشیں اور دباؤ پہلے بھی رہا ہے لیکن اب حکومت اس طرح کی پالیسیوں سے اسے قانونی شکل دے رہی ہے تاکہ '' کشمیری صحافیوں کو ہراساں کرنے میں مزیدآسانی ہواور آزاد صحافت کا بھی کلا گھونٹاجا سکے۔''
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ چند ماہ میں پولیس نے کئی نامور صحافیوں کے خلاف محض ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے لیے ان پر انسداددہشتگردی جیسے سخت قوانین کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔ صحافیوں کا الزام ہے کہ انہیں ان کی خبروں کے لیے پولیس اپنے دفاتر میں طلب کر کے اکثر پریشان کرتی ہے۔