کشمیر: نو عسکریت پسندوں سمیت 11 ہلاک
31 اگست 2010بھارتی فوج کے مطابق لائن آف کنٹرول کے نزدیک علاقے اوڑی میں نو مشتبہ عسکریت پسندوں کو اس وقت ایک جھڑپ میں مار دیا گیا، جب وہ بھارت کے زیر انتظام بحران زدہ کشمیر کی طرف داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں بھارتی فوج کے ترجمان جے ایس برار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’’فوج نے حد متارکہ پر نو شدت پسندوں کو ایک تصادم میں ہلاک کر کے دراندازی کی ایک بڑی کوشش ناکام بنا دی ہے۔‘‘ ترجمان کے مطابق یہ عسکریت پسند اندھیرے کا فائدہ اٹھاکر کشمیر میں داخل ہونے کی تاک میں تھے۔
مظاہرین پر پھر فائرنگ:
دوسری جانب پورے کشمیر صوبے میں گیارہ جون سے بھارت کی حکمرانی کے خلاف احتجاج کی شدید لہر جاری ہے۔ پیر کی شام بھارتی نیم فوجی عملے سی آر پی ایف اور ریاستی پولیس نے جنوبی ضلع اننت ناگ میں ایک ہند مخالف مظاہرے پر فائرنگ کی، جس میں ایک نو عمر ہلاک جبکہ بارہ دیگر زخمی ہوگئے۔ سینٹرل ریزرو پولیس فورس اور ریاستی پولیس کی طرف سے حالیہ مظاہروں پر فائرنگ کے مختلف واقعات میں اب تک ہزاروں نوجوان زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک قرار دی جا رہی ہے۔
پولیس کے مطابق اننت ناگ کے مظاہرے میں شامل بعض نوجوانوں نے سیکیورٹی فورسز پر پتھراوٴ کیا جبکہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ نیم فوجی عملے کے اہلکاروں نے بلا اشتعال مظاہرین پر فائرنگ کی۔ اس مظاہرے میں ایک کشمیری لڑکے کی موت کے بعد مزید مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرین ’’خون کے بدلے خون‘‘ اور کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔
اننت ناگ، پلوامہ اور سری نگر میں تناوٴ:
پیر کے روز اننت ناگ کے علاوہ شورش زدہ ریاست کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں بھی کشمیر کی آزادی کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ سری نگر میں پولیس کی فائرنگ سے ایک نوجوان ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے۔ ڈاکٹروں کے مطابق زخمیوں میں سے ایک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ہلاک ہونے والا نوجوان خود مختار کشمیر کے حامی رہنما یاسین ملک کا کزن ہے جبکہ ان کا ایک اور قریبی رشتہ دار زخمیوں میں شامل ہے۔ تازہ ہلاکتوں کے ساتھ ہی گزشتہ 81 روز میں مظاہروں میں ہلاک ہونے والے کشمیری نوجوانوں کی تعداد 66 ہو گئی ہے۔
پولیس کے مطابق سکیورٹی فورسز نے اس وقت فائرنگ کی جب بعض مشتعل نوجوانوں نے سری نگر کے مائسومہ نامی علاقے میں ان پر پتھراوٴ کیا لیکن مقامی باشندوں نے دعویٰ کیا کہ فائرنگ سے قبل کوئی پتھراؤ نہیں کیا گیا تھا۔ بعض مقامی لوگوں نے بتایا کہ سی آر پی ایف نے کیرم بورڈ کھیلنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کی۔ ایسی شکایات کے بعد پولیس نے انکوائری مکمل ہونے تک فائرنگ کرنے والے ایک افسر کو معطل کر دیا ہے۔
سری نگر اور اننت ناگ کی طرح کشمیر کے ایک اور ضلع پلوامہ سے بھی حکومت اور بھارتی فوج کے خلاف مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ پلوامہ میں پولیس ایکشن میں دو مظاہرین زخمی ہوئے۔
تازہ مظاہرے کب شروع ہوئے؟
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سخت ترین کرفیو کے باوجود ہند مخالف عوامی مظاہروں کا سلسلہ رواں برس گیارہ جون سے جاری ہے۔ ریاستی حکومت نے کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے پیش آنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔
گیارہ جون کو ریاست جمّوں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں پولیس شیلنگ کے نتیجے میں طفیل متو نامی ایک ٹین ایجر کی ہلاکت کے بعد سے وادی میں بھارت کے خلاف احتجاجی تحریک کی ایک نئی لہر اٹھی ہے جو اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
وادیء کشمیر میں سن 1989ء میں بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بحران کے باعث گزشتہ اکیس برسوں میں کشمیر میں 47 ہزار افراد جاں بحق ہوئے ہیں تاہم حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 80 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک