کشمیر کے مسائل کا حل سیاسی عمل میں: بھارتی وزیر داخلہ
5 اگست 2010گیارہ جون کو ریاست جمّوں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں پولیس شیلنگ کے نتیجے میں طفیل متو نامی ایک ٹین ایجر کی ہلاکت کے بعد سے وادی میں بھارت کے خلاف احتجاجی تحریک کی ایک نئی لہر جاری ہے۔
کل بدھ کے روز بھارتی نیم فوجی عملے سی آر پی ایف کی مبینہ فائرنگ کے باعث ایک اور کشمیری نوجوان ہلاک ہوگیا۔ مارے گئے اس نوجوان کی شناخت محمد یعقوب کے نام سے کی گئی ہے۔
بدھ کو ہی سترہ سالہ شہری اقبال احمد خان بھی سری نگر کے ایک ہسپتال میں اپنے زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ یہ نوجوان سری نگر کے علاقے چھانہ پورہ میں ایک حالیہ عوامی مظاہرے کے دوران سکیورٹی فورسز اور مشتعل مظاہرین کے مابین ایک جھڑپ کے نتیجے میں نشانہ بنا۔ اطلاعات کے مطابق سی آر پی ایف نے مظاہرین پر گولیاں چلائی تھیں۔ ایک گولی اقبال خان نامی اس نوجوان کے سر پر لگی تھی جبکہ یہ شخص مظاہرے میں شریک بھی نہیں تھا۔
بحران زدہ وادی ء کشمیر میں جمعہ کے روز سے مسلسل کرفیو نافذ ہے لیکن مشتعل مظاہرین شہریوں کی ہلاکت کے خلاف کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔
بدھ کو ہی کشمیر کے معروف ترین علٰیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے عوام سے پُر زور اپیل کی کہ وہ احتجاجی مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراوٴ کی کارروائیوں سے باز رہیں اور پولیس چوکیوں پر حملے نہ کریں۔ تاہم سید علی گیلانی نے عوام سے کشمیر پر ’’بھارتی فوجی قبضے‘‘ کے خلاف پُرامن مظاہرے جاری رکھنے کی اپیل کی۔ اکیاسی برس کے علیل رہنما گیلانی نے لوگوں پر زور دیا کہ پُر تشّدد مظاہروں سے ’’کشمیر کی تحریک آزادی‘‘ کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچ رہا ہے۔’’ہم متاثرین ہیں اور ہمارا رویہ اور برتاؤ بھی متاثرین کی طرح ہی ہونا چاہیے۔ آپ مظاہرے جاری رکھیں، اگر پولیس اور نیم فوجی اہلکار آپ کو آگے جانے سے روکیں، وہیں بیٹھیں اور اُن کی گولیوں کے لئے اپنے سینے پیش کردیں۔‘‘
ریاستی حکومت نے کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سختی سے پیش آنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔
کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں شہریوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی گونج بھارتی پارلیمان میں بھی سنائی دی۔ بھارت کے وفاقی وزیر داخلہ پی چدم برم نے لوک سبھا میں کشمیری نوجوانوں اور ٹین ایجرز کی ہلاکتوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کشمیری والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو مظاہروں میں شرکت کرنے سے روکیں۔
بھارتی وزیر داخلہ چدم برم اور ریاست جموّں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے زبردست مظاہروں کے بعد یہ بات تسلیم کی کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے۔ دونوں رہنماؤں نے کشمیری علٰیحدگی پسند رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے واضح اشارے دئے۔
دوسری جانب علٰیحدگی پسند اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے الزام عائد کیا کہ نئی دہلی کو ’’کشمیر میں معصوموں کی ہلاکت کے بعد ہی مذاکرات کی میز یاد آتی ہے۔‘‘ میرواعظ عمر فاروق حکومتی پابندیوں کے باعث گزشتہ ایک ماہ سے سری نگر کی جامع مسجد میں نماز بھی ادا نہیں کر سکے ہیں۔
ادھر بھارت کی مرکزی حکومت نے کشمیر میں جاری عوامی مظاہروں کو روکنے کے لئے مزید دو ہزار سکیورٹی اہلکار وادی روانہ کر دئے ہیں جبکہ خصوصی دستے ریپڈ ایکشن فورس کے تین سو اہلکار بھی بھیجے جا چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کشمیر میں پہلے ہی پانچ لاکھ سے بھی زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔
دریں اثناء مختلف حلقوں کی جانب سے صبر و تحمل کی متعدد اپیلوں کے باوجود کشمیر میں ہند مخالف مظاہرے جاری ہیں۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/ خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر