بھارتی فوج میرے بابا سے ڈرتی ہے، یاسین ملک کی بیٹی رضیہ
21 اگست 2022''میں اپنے بابا کی تصویر سے ہر بات شیئر کرتی ہوں۔ مجھے ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ جب میں دو سال کی تھی تو بابا نے ایک کیمرہ تحفہ میں دیا تھا۔ آخری بار 2019ء میں میری بابا سے فون پر بات ہوئی تھی۔ میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ میرے بابا بہت بہادر ہیں وہ کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، بھارتی فوج میرے بابا سے ڈرتی ہے تبھی انہیں قید کیا ہوا ہے۔ ہمیں ان سے ملنے بھی نہیں دیتے۔ میں بھی کشمیر کی آزادی تک اپنے باباکے مشن کو آگے بڑھاؤں گی۔‘‘
یہ کہنا ہے کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی 10 سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ کا۔ یاسین ملک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین ہیں، جو اس وقت تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔
اسلام آباد میں اپنی والدہ کے ساتھ مقیم رضیہ سلطانہ اپنے والد یاسین ملک کی جدائی کا غم لیے اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی آزادی کے لیے بھی پر عزم دکھائی دیتی ہیں۔چوتھی جماعت کی طالبہ رضیہ سلطانہ نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں نہ بچے اسکول جا سکتے ہیں نہ انہیں کھانے کو ملتا ہے، ''ان کے ماں باپ کو مار دیا جاتا ہے، خود انہیں بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان تمام بچوں کو ہم نے بچانا ہے۔‘‘
2012ء میں رضیہ سلطانہ کی پیدائش ہوئی۔ رضیہ نے بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے والد کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔ اس کے بعد سے اس بچی نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔
رضیہ سلطانہ کو یقین ہے کہ کشمیر بھی ''جلد آزاد ہو گا‘‘ اور وہ ایک دن اپنے والد کے ہمراہ ''کشمیر کی آزادی کا دن‘‘ بھی بھرپور طریقے سے منائیں گی، ''میں اپنے بابا کی طرح بہادر ہوں اور کشمیریوں کی آزادی کے لیے ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑی رہوں گی۔‘‘
رضیہ کے بھی دوسرے بچوں کی طرح خواب ہیں۔ وہ بڑی ہو کر سائنسدان بننا چاہتی ہیں تا کہ سائنسی ایجادات میں کشمیر اور پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔ رضیہ کہتی ہیں، ''میں چاہتی ہوں جب میں سائنسدان بنوں تو میرے بابا ہمارے پاس ہوں۔‘‘
رضیہ نے مزید بتایا کہ پاکستان بھی انہیں اتنا ہی عزیز ہے جتنا کشمیر۔ رضیہ کہتی ہیں کہ ان کا دنیا کو ایک ہی پیغام ہے کہ کشمیر کو بچائیں ان کے بابا کو بچائیں۔
رضیہ سلطانہ کی والدہ اور یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں اپنی بیٹی کا نام رضیہ سلطانہ رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی والدہ نے تاریخ کی بہادر ملکہ رضیہ سلطانہ کے نام پر رکھا ہے۔
ان کے بقول ان کی بیٹی اپنے بابا کی کاربن کاپی ہے، ''چہرہ اور نیچر بھی۔ انہی کی طرح پختہ ارادہ رکھنے والی، جب کسی بات پر ڈٹ جائے تو بس ڈٹ جاتی ہے۔ وہ جو کرنا چاہتی ہے کرتی ہے ہم اسے ڈیکٹیٹ نہیں کرتے۔ میری خواہش ہے کہ اس کی جو یہ محرومی ہے کہ اس کے ماں باپ الگ رہ رہے ہیں یہ ختم ہو جائے۔‘‘
اپنے شوہر یاسین ملک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مشعال نے کہا کہ یاسین ملک کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔ یاسین ملک کو ساڑھے 3 سال سے 5 بائے 7 فٹ کے پنجرے میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یاسین ملک 12 روز کیبھوک ہڑتال کے بعد کافی کمزور ہو گئے ہیں۔ ان کا وزن بھی 15 کلو کم ہو گیا ہے ان کی صحت کے حوالے سے بہت فکرمند ہوں، فیر ٹرائل ہونا چاہیے۔ دنیا سے اپیل کروں گی کہ سیاسی قیدی یاسین ملک کی رہائی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
مشعال ملک نے بتایا کہ اپنی بیٹی اور والدہ کے ساتھ یاسین ملک کو ملنے کے لیے جانے کی کوشش کی لیکن بھارت نے ان کا نام بھی غداری کے ایک مقدمے میں شامل کر دیا ہے، ''میرا ٹویٹر ہینڈل بھی بلاک کر دیا گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میرے وہاں جانے پر مجھے بھی سات سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ میری ساس نے بھی مجھے آنے سے منع کیا ہے انہوں نے کہا کہ تم قید ہو گئیں تو رضیہ کا کیا ہو گا۔‘‘
مشعال ملک نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ جیسے کلبوشن کی فیملی سے ملاقات کروائی گئی ہے اس کے لیے بھارت آئی سی جے گیا تھا، ''اسی طرح میری اور میری بیٹی کی بھی یاسین ملک سے محفوظ ملاقات کا بندوبست ہونا چاہیے۔‘‘