علیحدگی پسند کشمیری رہنما یاسین ملک نے بھوک ہڑتال ختم کر دی
2 اگست 2022
بھارتی دارالحکومت دہلی کی تہاڑ جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ یکم اگست پیر کے روز جب کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو یہ بتایا گیا کہ ان کے مطالبات کے حوالے سے متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے، تو انہوں نے شام کو اپنی دس روزہ بھوک ہڑتال ختم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔
بھوک ہڑتال کی وجہ سے جب یاسین ملک کی طبیعت جب زیادہ بگڑنے لگی تھی تو انہیں تہاڑ کی جیل نمبر سات سے طبی محکمے کےزیر انتظام ایک وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور ڈاکٹر انہیں مائع شکل میں غذا اور ادویات فراہم کر رہے تھے۔ وہ کافی دنوں سے ایک ہائی رسک جیل کے کمرے میں قید تنہائی میں بند ہیں۔
یاسین ملک نے 22 جولائی کو اس وقت غیر معینہ بھوک ہڑتال شروع کی تھی جب مرکز نے ان کی اس درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا، جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ روبیہ سعید اغوا کے کیس میں انہیں جموں کی عدالت میں جسمانی طور پر پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی مفتی سعید کی صاحبزادی کے اغوا کا کیس 20 برس سے بھی پرانا ہے، جس میں یاسین ملک بھی ایک ملزم ہیں۔ اس واقعے کا مقدمہ اب جموں کی عدالت میں شروع ہوا ہے، جس کے لیے یاسین ملک خود عدالت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی ہے۔
تہاڑ جیل کے حکام نے بتایا کہ دہلی میں جیلوں کے ڈائریکٹر جنرل سندیپ گوئل کی درخواست پر انہوں نے آئندہ دو ماہ کے لیے اپنی بھوک ہڑتال کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سندیپ گوئل کا کہنا تھا، ''میری درخواست پر یاسین ملک آج (پیر کی) شام کو اپنی بھوک ہڑتال چھوڑ دی ہے، جو 22 جولائی سے تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال پر تھے۔‘‘ بھوک ہڑتال کے وجہ سے بلڈ پریشر میں کافی اتار چڑھاؤ کے بعد گزشتہ ماہ یاسین ملک کو دہلی کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، تاہم جیل واپس آنے کے بعد بھی انہوں نے کچھ بھی کھانے سے انکار کر دیا تھا۔
جیل کے ایک سینئیر اہلکار نے میڈیا سے بات چيت میں کہا کہ ڈائریکٹر جنرل نے یاسین ملک کو بتایا ہے کہ ان کے مطالبات متعلقہ حکام کو بھجوا دیے گئے ہیں اور جواب ملنے پر یاسین ملک کو اس بارے میں فیصلے سے آگاہ کیا جائے گا۔
حال ہی میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کی ایک عدالت نے ممنوعہ تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے 56 سالہ سربراہ یاسین ملک کو مختلف کیسوں میں مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ یاسین ملک کو کشمیر میں ''دہشت گردی کے لیے چندہ جمع کرنے اور کشمیر میں بھارت مخالف مہم اور افراتفری پھیلانے‘‘ کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
تاہم کئي عالمی تنظیموں اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم او آئی سی نے اس کے لیے بھارت پر سخت تنقید کی تھی۔ او آئی سی کی انسانی حقوق کے ونگ نے کہا تھا کہ ''يہ تنظيم بھارت میں ایک فرضی مقدمے کی بنیاد پر ممتاز کشمیری سیاست دان مسٹر یاسین ملک کو من گھڑت الزامات کے تحت غیر قانونی طور پر سزا سنائے دینے کی مذمت کرتی ہے۔‘‘
یاسین ملک کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے تنظیم نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں لوگوں کو آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے ذریعے اپنے ''مستقبل کا تعین کرنے کا جو حق حاصل ہے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘
یاسین ملک کے خلاف اس کے علاوہ بھی کئی کیس ہیں، تاہم وہ گزشتہ سماعتوں کے دوران یہ بات کہہ چکے ہیں انہیں بھارتی عدالتوں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے، اس لیے وہ ان مقدمات کا دفاع نہیں کرنا چاہتے۔