کلاشنکوف سمارٹ فون سے سستی، جگہ جگہ اسلحہ ورکشاپس
28 جولائی 2016پہاڑیوں میں گھرا شمال مغربی شہر درّہ آدم خیل پاکستان میں ہتھیاروں کی سب سے بڑی بلیک مارکیٹ کہلاتا ہے۔ عشروں سے جرائم پیشہ سرگرمیوں کی آماجگاہ اس شہر میں وقفے وقفے سے گولیاں چلنے کی آوازیں آنا ایک معمول کی بات ہے۔ یہاں انسانوں کی اسمگلنگ سے لے کر منشیات کی خرید و فروخت تک اور چرائی ہوئی کاروں سے لے کر یونیورسٹی کی جعلی ڈگریوں تک ہر قسم کا کاروبار ہوتا رہا ہے۔
درّہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کا کئی نسلوں سے چلا آ رہا کاروبار 1980ء کے عشرے میں خاص طور پر چمکا، جب مجاہدین نے سرحد پار افغانستان جا کر سوویت فوجوں کے خلاف لڑنے کے لیے یہاں سے ہتھیار خریدنے شروع کیے۔
پھر حالات نے کروٹ لی اور یہاں پاکستانی طالبان کے قدم جمنے لگے، جنہوں نے سخت قوانین نافذ کیے اور انصاف کا ایک متوازی نظام رائج کر دیا۔ 2009ء میں اسی علاقے میں پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک انجینئر پیوٹر شٹانساک کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔
درّہ آدم خیل اب جرائم پیشہ سرگرمیوں سے کافی حد تک پاک ہو چکا ہے تاہم نئے حالات اسلحہ ساز کاریگروں کے لیے ساز گار نہیں۔ ترکی اور بلغاریہ کی مشہور ایم پی فائیو مشین گن کی ہو بہو نقل تیار کرنے کے ماہر کاریگر خطاب گُل نے بتایا: ’’نواز شریف حکومت نے جگہ جگہ چیک پوائنٹس بنا دیے ہیں، کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔‘‘
اصل ایم پی فائیو مشین گن کی قیمت ہزاروں ڈالر ہے جبکہ خطاب گُل کی تیار کردہ گن سات ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ یہ اصل گن ہی کی طرح کام بھی دیتی ہے۔ اس سے ایک ایک گولی بھی چلائی جا سکتی ہے اور پورا برسٹ بھی مارا جا سکتا ہے۔
ان ہتھیاروں کے لیے لوہا زیادہ تر کراچی کے شپ یارڈ سے آتا ہے۔
درّے میں بنی ایک کلاشنکوف ایک سو پچیس ڈالر میں مل جاتی ہے اور یوں بہت سے سمارٹ فونز سے کہیں زیادہ سستی ہے۔
گُل اب تک دَس ہزار گنیں فروخت کر چکا ہے: ’’یہاں ایسے ایسے ماہر موجود ہیں کہ جو کسی بھی طرح کے ہتھیار کی ہو بہو نقل بنا سکتے ہیں۔ مجھے کبھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔‘‘
آپریشن ضربِ عضب سے پہلے گُل کی ورکشاپ میں روزانہ دَس ہتھیار تیار ہوتے تھے۔ اب مانگ کم ہونے سے یہ تعداد چار ہتھیار روزانہ رہ گئی ہے۔
درّہ ٹریڈ یونین لیڈر بادام اکبر نے اس امر کی تصدیق کی کہ تین ہزار دوکانیں بند ہو چکی ہیں اور ماہر کاریگروں کو اب نئے نئے ہنر سیکھنا پڑ رہے ہیں۔