کمرتوڑ مہنگائی لیکن عوام خاموش
1 جولائی 2022نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 14روپے 85 پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 13 روپے 23 پیسے، مٹی کے تیل میں 18روپے 83 پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 18 روپے 68 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔
قیمتوں کا طوفان
قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 248 روپے 74 پیسے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 276 روپے 54 پیسے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی نئی قیمت 230 روپے 26 پیسے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 226 روپے 15پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے علاوہ حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا ہے جب کہ اشیائے خوردنوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جون میں مہنگائی کی شرح اکیس اعشاریہ تین فیصد تھی۔ اب اس نئے اضافے سے اس شرح کے بڑھنے کے امکانات ہیں۔
دوسرے اجتماعات میں عوامی شرکت
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ کچھ تبلیغی اجتماعات، مذہبی تقریبات اور سیاسی جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ لاہور میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کو مسلم دنیا کے بڑے اجتماعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
ملتان اور کراچی میں دعوت اسلامی بھی لاکھوں افراد کے اجتماعات کرتی ہے۔ اسی طرح کچھ عرس کی تقریبات میں بھی لاکھوں افراد شرکت کرتے ہیں لیکن مہنگائی کے خلاف اجتماعات میں عوام کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
سیاسی اور سماجی تنظیموں کی غیر فعالیت
لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ سیاسی اداروں اور سماجی تنظیموں کی کمی یا غیر فعالیت کی وجہ سے مہنگائی کے خلاف بھر پور احتجاج نہیں ہوتا حالانکہ اس سے ایک عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
عمار علی نے ڈبلیو کو بتایا، ''انڈونیشیا میں حال ہی میں مہنگائی اور غربت کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں کیونکہ وہاں ٹریڈ یونینز موجود ہیں جبکہ لبنان میں سماجی تنظیمیں مضبوط ہیں اور وہاں بھی بڑے بڑے مظاہرے اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہوئے ہیں۔ پاکستان میں نہ طلبا یونینز ہیں اور نہ ہی ٹریڈ یونیز مضبوط ہیں۔ اس لیے یہاں مظاہرے اتنے طاقتور نہیں ہوتے۔‘‘
نیو لبرل ایجنڈا
عمار علی کا مزید کہنا تھا کہ مذہبی تنظیمیں بھی اس صورت حال کی ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی مہنگائی، غربت اور بھوک و افلاس کو اہمیت نہیں دیتیں جب کہ سیاسی جماعتیں بھی اس مسئلے پر ایک حد تک جاتی ہیں کیونکہ ساری سیاسی جماعتوں کو نیو لبرل ایجنڈے پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے، جو مہنگائی کی ایک بڑی اہم وجہ ہے۔‘‘
مہنگائی پر کوئی بڑا جلسہ نہیں
پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار مختار باچا کا کہنا ہے کہ ان کے حافظے میں کوئی ایسا بڑا مظاہرہ نہیں جو مہنگائی کے خلاف ہوا ہو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مہنگائی کے خلاف پچاس یا سو لوگوں کا مظاہرہ ہوتا ہے لیکن کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اقتدار کے لیے الیکٹیبلز کی طرف دیکھتے ہیں، جو مہنگائی سے نہ ہی متاثر ہوتے ہیں اور نہ مہنگائی ان کا مسئلہ ہوتا ہے۔‘‘
سیاسی اشرافیہ پر اعتماد نہیں
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کو احتجاج کے لیے نکالتی ہیں لیکن پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر عوام کا اعتماد نہیں۔ سندھ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے دانشور امداد قاضی کا کہنا ہے کہ مہنگائی سیاسی جماعتوں کی ترجیح بھی نہیں ہے۔
امداد قاضی کے بقول، ''ہماری سیاسی اشرافیہ امرا پر مشتمل ہے، جس کا غربت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اگر ایک جماعت مسئلہ نہ اٹھائے تو دوسری اپنے مخالف کی حکومت کو گرانے کے لئے تو یہ مسئلہ اٹھا سکتی ہے لیکن سب کو پتہ ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو آئی ایم ایف ناراض ہو جائے گا اور ان کو اقتدار میں حصہ نہیں ملے گا۔ اس لیے سیاسی اشرافیہ اس مسئلے کو نہیں اٹھاتی اور اگر وہ کال دیتے ہیں تو لوگ نہیں جاتے کیونکہ وہ ان پر اعتماد نہیں کرتے۔‘‘
ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا
واضح رہے کہ کچھ عرصے پہلے مسلم لیگ نون لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مہنگائی کے حوالے سے احتجاج کیا تھا جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس نعرے کو گاہے بگاہے لگایا ہے۔ لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو صرف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
امداد قاضی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں اس کو ہتھیار کے طور پر تو استعمال کرتی ہیں لیکن مہنگائی کے مسئلے کو پوری شدت سے نہیں اٹھاتی کیونکہ ان کو علم ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں۔