کُرد پیشقدمی پر ترکی کی خفگی، امریکا کے لیے نئی پریشانی
26 اگست 2016ترک فوج نے شام کی سرحد عبور کرتے ہوئے اپنے حامی شامی باغیوں کے ساتھ جرابلس شہر پر سے عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کا قبضہ ختم کر دیا ہے۔ اسی دوران ترک حکومت نے شام میں کرد فائٹرز کی پیشقدمی پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں متنبہ کیا ہے کہ وہ دریائے فرات کے پار واپس چلے جائیں وگرنہ انہیں شدید نتائج کا سامنا ہو گا۔ اسی دوران ترک فوج نے مَنبِج شہر کے شمال میں کرد فائٹرز (YPG) کے ٹھکانوں پر شیلنگ بھی کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترک صدر نے جرابلس کے فوجی آپریشن شروع کرنے سے قبل شامی صدر بشار الاسد کے حامی روس کی خفیہ رضامندی ضرور حاصل کی تھی۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ جرابلس کی عسکری مہم واضح طور پر امریکا اور کرد فائٹرز کے لیے ایک انتباہی پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا بھی خیال کیا گیا ہے کہ ترکی نے اِس آپریشن سے قبل ایران کے ساتھ بھی مشاورت کی تھی۔
شمال مشرقی شام کے کرد فائٹرز کو واضح امریکی حمایت حاصل ہے۔ انہیں امریکی فوجی ماہرین کی رہنمائی اور مشاورت بھی دستیاب ہے۔ دوسری جانب ترکی علیحدگی پسند کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے جنگجوؤں کی طرح شامی کردوں کو بھی دہشت گرد خیال کرتا ہے۔ شام میں کرد فائٹرز اور عرب جنگجووں کی مشترکہ فوج شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF) امریکی حمایت پر تکیہ کرتی ہے۔
شام میں مسلح مزاحمت کرنے والی مخلوط اپوزیشن کی فوج کے لیے امریکی صدر باراک اوباما کے خصوصی ایلچی بریٹ مک گرُوک کے تازہ ترین ٹوئیٹس امریکی پالیسی کے عکاس ہیں۔ انہوں نے ایک طرف جرابلس کے ترک آپریشن کو درست سمت کے جانب ایک قدم قرار دیا تو دوسری جانب سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) کو قابلِ اعتماد اتحادی قرار دیا جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف نبرد آزما ہے۔
ایک تھنک ٹینک فاؤنڈیشن برائے ڈیفنس آف ڈیموکریسز کے سینیئر محقق ایکن اردمیر کا کہنا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت میں امریکی حمایت کے شبے سامنے لانے کے بعد ترکی میں ایردوآن کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اِس عوامی حمایت کے تناظر میں ترک صدر امریکا سے بظاہر خوفزدہ دکھائی نہیں دیتے۔
اردمیر کا خیال ہے کہ ترکی میں اجانب پسندی، سامیت دشمنی اور مغربی اقوام کے خلاف جذبات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اردمیر کے مطابق تین چوتھائی ترک امریکا کو پسند نہیں کرتے۔ یہ بات امریکی ادارے پیُو انٹرنیشنل نے اپنے ایک سروے میں واضح کی تھی۔ے یہ سروے سن 2014 میں مکمل کیا گیا تھا۔
اردمیر نے اِس کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایردوآن ترک آبادی کے ان رویوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلتی آگ پر تیل ڈال سکتے ہیں اور اُس کے بعد کا کوئی پتہ نہیں کہ کیا ہو گا۔ اسی بنیاد پر ترک پارلیمنٹ کے سابق رکن اور ریسرچر نے انقرہ حکومت کے امریکا کے ساتھ تعلقات میں گراوٹ کے علاوہ یورپ کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کی صورتحال پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔